سوال: قرآن کی کتابی شکل کس صحابی کے دورمیں آئی۔
جواب: قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں کتابی شکل میں آچکاتھا حفاظت قرآن کا اصل دارومدار تو حفظ تھا مگر نبی اکرم ﷺ نے قرآن کی کتابت کا بھی اہتمام کرڈالا۔ یہ بھی قرآن مجید کا جمع کرنا ہے۔نزول کے بعد آپ ﷺ کاتبان وحی کو جبریل امین کی ہدایت کے مطابق فرماتے کہ یہ آیات نازل ہوئی ہیں جنہیں فلاں سورہ کی فلاں آیت کے سرے پر رکھو اور لکھو۔اس طرح قرآن کریم کے ایک ایک حرف، آیت، سورۃ کو کتابت کے ذریعے آپ ﷺ نے صحیفوں اور سطور میں ترتیب دے کرمحفوظ کردیا۔اس کتابت کے بارے میں سیدنا زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں:
قرآن کی جو آیات نازل ہوتیں آپ ﷺ مجھے لکھوا دیتے۔اس کے بعد میں آپ ﷺکو سناتا، اگر اصلاح کی ضرورت ہوتی تو آپﷺ اصلاح فرما دیتے ۔ پھر اس کے بعد اس لکھے ہوئے کو میں لوگوں کے سامنے لاتا۔جو کچھ بھی لکھا جاتا وہ آپﷺ کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا۔ اس دور میں قرآن کاغذوں پر لکھا جاتا نہ ہی باقاعدہ مصحف کی صورت میں تھا بلکہ متفرق طور پر پتھر کی تختیوں ، چمڑے کے ٹکڑوں ، درخت کی چھا لوں اور چوڑی ہڈیوں وغیرہ پر لکھا جاتا تھا۔(مناہل العرفان اززرقانی:۲۳۹) اسی لئے تو سیدنا زید ؓ کا یہ کہنا ہے: قبض النبی ﷺ ولم یکن القرآن جمع فی شیء۔ آپﷺ کا انتقال ہوا اور قرآن کریم کسی بھی شے میں جمع نہ تھا۔(فتح الباری ۹؍۹)
قتادۃؓ نے سیدنا انسؓ بن مالک سے پوچھا کہ دور نبوی ؐ میں قرآن کس نے جمع کیا؟ انہوں نے کہا : چار آدمیوں نے جو انصاری تھے؛ ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ ، معاذ بن جبل ؓ اورابوزیدؓ ۔(صحیح بخاری۲؍۴۷۸)
سوال:قرآن میں زیرزبرکس صحابی نے لگائے۔
جواب: قران میں زبرزیر تب سے ہے جب سے قران ہے، البتہ اسے لکھا بعدمیں گیا ہے،اوربعدمیں لکھنے کے لئے دلیل موجودہے،لکھنے کی دلیل میں آگے پیش کروں گا پہلے اس بات کے دلائل سامنے رکھ دیں کہ قران مجید میں زیرزبرنیانہیں ہے،ملاحظہ ہو:
پہلی دلیل:
قران مجید ہم تک تلاوت ہوکرپہنچاہے،سب سے پہلے اللہ نے اس کی تلاوت کی ،اللہ کا ارشادہے:
{ تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ } [الجاثية: 6]
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم تم پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں (یعنی پڑھتے ہیں)۔
اللہ کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اس قران کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا:
{وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195)} [الشعراء: 192 - 195]
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ،آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں ،صاف عربی زبان میں ہے۔
اس کے بعدجبرئیل علیہ السلام نے بھی قران مجید کو پڑھ کراورتلاوت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا ہے، بخاری میں ہے:
وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ(صحیح البخاری (1/ 8) رقم 6)
یعنی جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہررات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اورآپ کوقران پڑھاتے تھے۔
اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران پڑھ کر ہی صحابہ کرام کوبتلایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیرزبرزیرکے قران کی تلاوت یا اسے پڑھنا ممکن ہے ؟؟؟ ہرگزنہیں !
مثال کے طورپر آپ کسی بھی شخص سے کہیں کہ سورہ فاتحہ کی آیت '' الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ '' پڑھے، پھراس سے سوال کریں کہ:
تم نے ''الحمد'' کے ''ح'' پرکیا پڑھا ؟
وہ جواب سے گا زبرپڑھا ، اب سوال کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسی ''الحمد'' کو پڑھا تھا توکیا پڑھا تھا؟
یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبرہی پڑھا تھا، اوراسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تلاوت کی اوراس سے پہلے اللہ نے تلاوت کی۔
دوسری دلیل:
زیرزبرلکھنے سے پہلے قران کا جوتلفظ تھا وہی تلفظ اب بھی ہے، اس پرپوری امت کا جماع ہے کسی کا اختلاف نہیں ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیرزبرپہلے ہی سے تھا،البتہ لکھا ہوا نہیں تھابعد میں گیا ہے۔
تیسری دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے قرآنی آیات کے جومعانی تھے وہی معانی اب بھی ہیں ، اگرزبرزیرنیا ہوتاتومعانی بدل جاتے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قران میں زبرزیرپہلے ہی سے موجودتھا البتہ اسے لکھا بعدمیں گیاہے۔
چوتھی دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے ہرحرف پردس نیکی کا ثواب تھا اورزبرزیرلکھنے کے بعد بھی ثواب اتنا ہی ہے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زبرزیرنیانہیں ہے پہلے ہی سے ہے البتہ اس کی کتابت بعدمیں ہوئی ہے۔
پانچویں دلیل:
قران نے پوری دنیا کوچیلنج کیا ہے کہ کوئی بھی قران جیسی کوئی سورة نہیں بنا سکتا،اگرپوری دنیا قران جیسی سورة پیش کرنے سے عاجزہے،توخودمسلمانوں میں یہ طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ قران میں قران ہی جیسی کوئی چیز داخل کریں اوروہ بھی ''الحمد'' سے لیکر ''الناس'' تک؟؟؟
اس سے بھی ثابت ہواکہ زبرزیرکوبعدمیں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قران میں پہلے ہی سے موجودتھا۔
چھٹی دلیل:
صحابہ کرام وازواج مطہرات باقائدہ زبرزیرسے استدلال کرتے تھے، ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ» ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: " مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ "صحيح البخاري (4/ 150 رقم3389)
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ انکی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔
اس حدیث میں غورفرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی پربحث کی ہے اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اورزبرزیرقران میں پہلے ہی سے ہے۔
ساتویں دلیل:
اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ اس قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل نہیں کرسکتے اوربالفرض وہ اگرایسا کرنے کو کوشش کریں گے تو ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیں گے، ارشاد ہے:
{ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47)} [الحاقة: 43 - 47]
(یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ،تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ،پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔
غورکریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل کرسکیں ، اوربالفرض ایسا کرنے پرانہیں سخت وعید سنائی گئی ہے ،تو ایک معمولی انسان کواتنی جرأت کیسے ہوگئی کہ وہ پورے قران میں اپنی طرف سے زبرزیرداخل کردے ۔
آٹھویں دلیل:
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قران مخلوق نہیں ہے ، اب بتائیے کہ جوچیز غیرمخلوق ہے اس میں مخلوق اضافہ کیسے کرسکتی ہے؟؟؟
نویں دلیل:
اللہ نے اس بات کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ قران مجید کواپنی اصلی شکل میں محفوظ رکھے گا،ارشادہے:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } [الحجر: 9]
قران کو ہم نے ناز ل کیا ہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
غورکریں کہ جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لے رکھی ہے ،اس میں کوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے کی جرأت کسے ہوسکتی ہے؟؟؟معلوم ہوا کہ قران اب بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اس میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہیں ہواہے۔
لہٰذا زبرزیرلازمی طورپرقران مجید میں پہلے ہی سے موجودہے البتہ شروع میں اسے لکھا نہیں گیا تھااوربعدمیں اسے لکھ دیا گیا۔
دسویں دلیل:
اگرلکھنے سے کوئی چیز نئی نہیں ہوجاتی،تو لازم آئے گا کہ پورا قران بھی بعدمیں بنایا گیا ہے۔
اس لئے کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوقران پیش کیا وہ لکھا ہوا نہیں تھا ،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقران صحابہ کو پڑھ کرسنایا وہ بھی لکھا ہوانہیں تھا ،البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعدصحابہ کرام نے اسے لکھ لیا،تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ پوراقران بھی اسلام میں منجانب اللہ پہلے ہی سے نہیں تھا اسے صحابہ کرام نے اپنی طرف سے بنایاہے؟؟؟
لہٰذا جس طرح قران کوبعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجاتااسی طرح زبرزیرکوبھی بعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجائے گا۔
تلک عشرة کاملہ۔
اب اگرکوئی کہے کہ ٹھیک ہے کہ زبرزیرپہلے سے موجودتھا اوراس کے لکھنے سے قران میں اضافہ بھی نہیں ہوتا لیکن فی نفسہ یہ لکھنا توایک نیا عمل ہے ، لہٰذا بدعت ہوا۔
توعرض ہے کہ زبرزیرلکھنا بدعت ہرگزنہیں ہے کیونکہ اس کے لکھنے کی دلیل موجودہے ملاحظہ ہو:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: «اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ» سنن أبي داود (3/ 318 رقم3646)
صحابی رسول عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہرچیز کو لکھنے کی اجازت دی ہے اورقران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے تلاوت ہوکرامت کو ملاہے،اورپہلے واضح کیا جاچکا ہے کہ تلاوت زبرزیرکے ساتھ ہی ہوتی ہے،گویا کہ زبرزیربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہی نکلا ہے،لہٰذامذکورہ حدیث میں اس کے لکھنے کا بھی جواز موجودہے۔
لہٰذا قران مجید میں زبرلکھنے پراس حدیث سے دلیل موجودہے۔
سوال:قرآن میں منازل کس صحابی نے لگائیں۔
جواب: انسان کے لئے اللہ تعالی کی ایک خاص نعمت ہے، جس میں موعظت و ہدایت، تفصیل و تکثیر انعامات الٰہی، تقرب ربانی اور کرامات کا دریا موجزن ہے، یہ ہر طرح انسان کے لئے باعث رحمت، باعث برکت، باعث مغفرت اور ہدایت کاملہ ہے،اللہ کی خوشنودی و رضامندی برائیوں سے بچاؤ، اچھائیوں کی راہ، آلام و مصائب سے چھٹکارا، دکھ تکلیف، رنج و کلفت سے بچاؤ کا طریقہ، امن و سکینت کا سبب اور رشد وہدایت نیز انسانی فلاح و بہبود کا منبع ہے۔
انسان کو صحیح معنوں میں مسجود ملائکہ اور اشرف المخلوقات بنانے کے لئے اللہ نے خیر و شفاء کا یہ منبع سب نبیوں کے سردار اور رسولوں کے امام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا اور اس عظیم کتاب کے تھامنے والوں کو سب امتوں سے افضل اور پڑھنے والوں کو سب انسانوں سے بہتر قرار دیا، یہ کتاب اللہ کے حضرت انسان اور امت مسلمہ سے حددرجہ پیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت انسان اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس عظمت و رفعت کے مرکب کی کماحقہ قدر کرے اور اپنا انگ انگ اس کے حوالے کردے، تبھی اس کی رحمت و برکات، مغفرت و ہدایت اور قرب الٰہی و انعامات ربانی کا حصول ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید معبود حقیقی اور محبوب و مطلوب کا کلام خاص ہے، محبوب کی تقریر وتحریر کی کسی دل کھوئے کے ہاں جو وقعت ہوتی ہے اور کے ساتھ جو وارفتگی و شیفتگی کا معاملہ ہوتا ہے وہ اختیار کرنا چاہئے ، پھر یہ عظیم کتاب تو احکم الحاکمین کا کلام اور سلطان السلاطین، بادشاہوں کے بادشاہ کا فرمان ہے اس سطوت و جبروت والے شہنشاہ کا قانون ہے جس کی ہمسری نہ کسی سے ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں کو سلاطین کے دربار سے واسطہ پڑا ہے وہ تجربے سے اور جن کو نہیں پڑا وہ اندازے سے سلطانی فرمان کی ہیبت جان سکتے ہیں،کلام الٰہی محبوب و حاکم کا کلام ہے اس لئے دونوں آداب کا خیال رکھنا چاہئے، حضرت عکرمہ جب کلام پاک پڑھنے کے لئے کھولتے تو بے ہوش ہوکر گر پڑتے ، زبان پر یہی جاری ہوتا تھا: ہذا کلام ربی، ہذا کلام ربی۔یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔
یعنی اس کو ایک عام فرد کی طرح نہیں پڑھنا چاہئے، صرف بندہ بن کر اپنے آقا، مالک، محسن اور منعم کا کلام سمجھ کر پڑھے اس کے حضور حاضر ہو جس طرح کسی خاص تقریب میں آقا کے حضور حاضر ہے، اچھی طرح مسواک کرکے، وضو کرکے ایسی جگہ جہاں یکسوئی حاصل ہو، نہایت وقار اور تواضع کے ساتھ قبلہ روبیٹھئے، نہایت حضور قلب اور خشوع کے ساتھ اس طرح پڑھئے گویا حق تعالیٰ سبحانہ کو کلام پاک سنارہا ہے یا اس ذات برحق سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہے،(اگر معنی جانتا ہو تو کیا ہی خوب۔۔۔) نہایت تدبر و تفکر کے ساتھ وعدے اور رحمت و مغفرت کی آیات پر مغفرت و رحمت کا بھکاری بن جائے اور خوب دعا مانگے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں، جن آیات اللہ کی تقدیس و تحمید ہے وہاں سبحان اللہ کہے، تلاوت کے درمیان ازخود رونا آئے تو بہت خوب، ورنہ بہ تکلف رونے کی سعی کرے، دوران تلاوت کسی اور سے ہم کلام نہ ہو،دوران تلاوت اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو تلاوت بند کرکے ضرورت پوری کرے اور پھر تعوذ پڑھ کر دوبارہ تلاوت کرے، بلند آواز سے پڑھنا اولیٰ ہے لیکن کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا لوگ مجمع میں دیگر امور میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھے۔
اس کتاب کی تلاوت کے آداب جو قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(1۔ اس عظیم کتاب کو برحق، شک و شبہ سے بالاتر اور انسان کی فلاح و خیر ، رشد و ہدایت اور شفا کا باعث جاننا منزل من اللہ ، منز ل برسول اللہ سمجھنا اور باعث ثواب و اجر قرار دینا، اس میں درج احکامات پر عمل کرنااور تمام کے تمام پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی بہتری کیلئے کوشش کرنا (دنیا وآخرت کی کامیابی کا باعث قرار دے کر اس کی آیات کو لازم حیات بنالینا)۔
(2)۔ اس کتاب مقدس کو انتہائی پاک جگہ پر رکھا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے ’’مرفوعۃ مطہرۃ‘‘کے الفاظ بیان کئے ہیں یعنی بلند و پاک ،سو اس کتاب مقدس کو کسی اونچی جگہ اور پاکیزہ مقام پر رکھا جائے۔
(3)۔ اس کو ناپاک ہاتھ نہ لگنے چاہئیں، جب بھی چھوا جائے باوضو ہوکر ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ میں یہی حکم ہے، نیز رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ بھی ہے ’’لایمس القرآن الا طاہر‘‘ کہ ہرگز قرآن کو بے وضو نہ چھوا جائے، یہ وہ حکم نبوی ﷺ ہے جو حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو بھیجا گیا تھا۔(مؤطا کتاب القرآن)
(4)۔ حالت جنابت اور حیض و نفاس میں قرآن کی تلاوت بھی جائز نہیں ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تقرا الحائض والجنب شیئا من القرآن ۔ (حائضہ اور جنبی قرآن کو کچھ بھی نہ پڑھے)
نوٹ: احکام القرآن للجصاص، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ کے حوالے سے صحابہ کرام بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے، مگر چھونے کو ناروا۔ یعنی بے وضو قرآن کو چھونا نہیں چاہئے،البتہ زبانی پڑھا جاسکتا ہے، البتہ حالت جنابت ، حیض ونفاس میں زبانی بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔
اسی طرح اگر کوئی جنبی اور حائضہ کے سامنے قرآن پاک پڑھ رہا ہو اور وہ غلطی کرجائے تو اس صورت میں غلطی کی درستگی کے لئے جنبی اور حائضہ کے قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ہے، ایسے ہی عام معمولات میں کلمات خیر مثلا الحمدللہ،سبحان اللہ، ان شاء اللہ وغیرہ کہنے کی بھی اجازت ہے۔
(5)۔ جب بھی قرآن پاک پڑھے بلند آواز سے پڑھے کہ اس کا سننا بھی باعث ثواب و رحمت ہے اور سے یہ بھی مقصود ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوتو کوئی سننے والا درست کردے۔ امام بخاری نے جامع الصحیح میں باقاعدہ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کا باب باندھا ہے اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور لوچدار لہجے میں بلند آواز سے سورہ فتح پڑھ رہے تھے(کتاب التفسیر،بخاری)
(6)۔ قرآن پاک خوش الحانی اورخوش لہجہ سے پڑھنا چاہئے رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے: حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا۔ تم لوگ اپنی آوازوں سے قرآن پاک کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔
(7)۔قرآن پاک پڑھنے میں تیزی نہیں کرنی چاہئے کہ الفاظ آپس میں گھل جائیں اور سمجھ نہ آئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ کہ قرآن پڑھتے ہوئے جلد بازی میں زبان نہیں ہلانی چاہئے۔ (القیامہ)
(8)۔ایک ایک لفظ کھینچ کھینچ کر اور موتیوں کی صورت الگ پڑھنا چاہئے، جیسے ہر لفظ کا مزا لے کر پڑھا جائے، بخاری شریف میں باقاعدہ الفاظ کھینچ کر پڑھنے کا باب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔
دوسری جگہ حدیث میں ہے:
فقال کانت مدثم قراء بسم اللہ الرحمن الرحیم یمد بسم اللہ و یمد بالرحمن ویمد بالرحیم ۔ (بخاری کتاب التفسیر)
(9)۔ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، اللہ رب العزت کاارشاد ہے: ورتل القرآن ترتیلا۔(مزمل) کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے رات پوری مفصل سورتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن نہیں پڑھا بلکہ یہ تو گھاس کاٹنا ہوا۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں : یقطع قراتہ یقول الحمد للہ رب العالمین ثم یقف ویقول الرحمن الرحیم ثم یقف وکان یقرا مالک یوم الدین(شمائل ترمذی) کہ رسول اللہ ﷺہر آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے، کہ الحمدللہ رب العالمین پڑھتے پھر ٹھہر جاتے، پھر الرحمن الرحیم پڑھتے پھر رک جاتے پھر مالک یوم الدین پڑھتے۔ یعنی ہر آیت پر رکنا اور وقف کرنا ہی سنت اور ترتیل ہے۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں ترتیل سے القارعۃ اور اذازلزلت پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں، اس سے کہ سورہ بقرہ اور آل عمران بلا ترتیل پڑھوں۔
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قرآن پڑھنے والوں سے کہے گا کہ ترتیل سے پڑھتا جا جس طرح دنیا میں پڑھتا تھا اور جنت کے درجات طے کرتا جا۔ جہاں آیات ختم ہونگی وہی تیری منزل ہے۔ (سنن اربعہ، احمد ،ابن حبان، باب فضائل القرآن)۔
(10)۔ قرآن پاک کو جتنا بھی غور سے پڑھا جائے بہتر ہے کم از کم مدت ایک ماہ میں ختم کرنا چاہئے، اگر مزید استطاعت ہوتو پندرہ دن میں، مزید استطاعت ہو تو سات دن میں اس سے کم بالکل نہیں پڑھنا چاہئے۔
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں روایت ہیں جن میں ایک ماہ میں قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ، حد سات دن کا حکم ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اقرء القرآن فی شہر قلت انی اجد قوۃ حتی قال فاقراہ فی سبع ولا تزد علیہ۔ یعنی قرآن کو تم ایک ماہ میں پڑھو (حضرت عبداللہ کہتے ہیں) میں نے کہا میں اس سے زیادہ کی استطاعت رکھتا ہوں، فرمایا زیادہ سے زیادہ سات دن میں پڑھو اور سات سے کم میں بالکل نہیں( بخاری کتاب التفسیر)
اسی وجہ سے قرآن کی سات منازل بنائی گئی ہیں، تاکہ حفاظ و قراء ایک ہفتے میں قرآن کا دور کر سکیں، صحابہ کرام و تابعین نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے پورے قرآن کی کل سات منازل ہیں۔
ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لم یفقہ من قرء القرآن فی اقل من ثلث۔ یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قرآن کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ (کتاب القرآن)۔
سوال:قرآن پاک کے تیس پاروں کی ترتیب کس صحابی نے کی۔
جواب: سورت: اسے عربی میں تاء مربوطہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جس کی جمع سُوَر آتی ہے۔ اس لفظ کو دو حیثیتوں سے بولا جاتا ہے:
۱۔ السُّؤْرَۃ: ہمزہ کے ساتھ۔ جو أَسْأَرَ سے مشتق ہے۔ جس کا معنی ہے: أَبْقٰی۔ باقی رہنے والا۔ السُّؤْرُ: باقی ماندہ۔ پانی جو پی کر برتن یا گلاس میں چھوڑ دیا جائے۔ اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے گویا کہ سؤرۃ بھی سارے قرآن کا بقیہ حصہ ہے اور اس کا ایک ٹکڑا ہے۔
۲۔ السُّوْرَۃ: بغیر ہمزہ کے۔اس کا معنی مقام ومرتبہ ہے یا لمبی و خوبصورت عمارت ہو جو ایک علامت ہو۔ اس اعتبار سے سورت نام پھر اس لئے ہے کہ یہ اپنے مرتبے اور مقام کے اعتبار سے اس سچائی کی علامت ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے۔اور ایک دلیل بھی ہے کہ یہ سارا قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا کلام ہے۔قلعے کی اونچٖی دیوار کو سُوْر کہتے ہیں۔ دو وجہ سے لفظ سورت اس لفظ کے مشابہ ہے:
۱۔ دیوار اونچی محسوس ہوتی ہے۔ سورت اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے بھی بلند وبالا محسوس ہوتی ہے۔
۲۔دیوار کی اٹھان ایک دوسرے پر رکھی گئی اینٹوں پر ہوتی ہے۔ آیات جویکے بعد دیگرے آتی ہیں سورت کی اٹھان بھی ان پر ہوتی ہے۔
علماء قرآن کے نزدیک سورت قرآن کریم کی آیات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کا ایک مطلع یعنی آغاز ہوتا ہے اور اس کا ایک مقطع یعنی اختتام ہوتا ہے۔یہ سب ایک سو چودہ سورتیںہیں جس کا آغاز الفاتحہ سے اور اختتام الناس سے ہوتا ہے۔اکثر سورتیں ایسی ہیں جن کا ایک ہی نام ہے جیسے النسائ، الاعراف، الأنعام، مریم وغیرہ۔ مگر کچھ ایسی بھی ہیں جن کے متعدد نام ہیں۔ان میں کسی کے دو نام ہیں: جیسے: محمد، اس کا ایک نام القتال بھی ہے۔ اور الجاثیۃ اس کا دوسرا نام الشریعہ بھی ہے۔ سورۃ النحل کا دوسرا نام النِّعَم ہے اس لئے کہ اس میں متعدد نعمتوں کا ذکر ہے۔
اسی طرح سورہ المائدۃ کے دو اور نام ہیں: العُقُود، اورالمُنْقِذَۃ، سورۃ غافر کے بھی اسی طرح دو اور نام ہیں: الطَّوْل اور المُؤمِن۔
بعض سورتیں ایسی ہیں جن کے تین سے زیادہ نام ہیں: مثلاً: سورۃ التوبۃ کے یہ نام بھی ہیں: بَرَاءَۃ، الفاضِحَۃ اور الحَافِرَۃ، سیدنا حذیفہ فرماتے ہیں یہ سورۃ العذاب ہے۔ ابن عمرؓ فرمایا کرتے: ہم اسے المُشَقْشِقَۃ کہا کرتے۔ اور الحارث بن یزید کہتے ہیں: اسے المُبَعْثَرَۃ ، المُسَوَّرۃ اور البَحُوث بھی کہا جاتا۔(البرہان ۱؍۵۲۱) اسی طرح سورۃ فاتحہ کے امام سیوطی ؒنے پچیس نام لکھے ہیں۔
کچھ سورتوں کا ایک ہی نام ہے: جیسے البقرۃ اور آل عمران کو الزہراوَین کہا جاتا ہے۔ اور الفلق اور الناس کو المُعَوَّذَتَیْن اور وہ پانچ سورتیں جن کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے انہیں آل حامیم یا حوامیم کہتے ہیں۔
آیت: عربی زبان میں لفظ آیت کے متعدد معانی ہیں۔معجزہ، علامت اور عبرت کے معنی میں بھی آیت کا لفظ قرآن کریم میں مستعمل ہوا ہے۔برہان اور دلیل کے معنی بھی یہ لفظ دیتا ہے۔ اسی طرح لفظ آیت حیران کن معاملے کے لئے بھی ہے جیسے: فُلانٌ آیَۃٌ فِی الْعِلْمِ وَفِی الْجَمَالِ۔ فلان شخص علم میں یا جمال میں ایک آیت ہے مراد یہ کہ اس کا علم یا جمال حیران کن ہے۔ اسی طرح لفظ آیت: جماعت کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے عرب کہا کرتے ہیں: خَرَجَ الْقَوْمُ بِآیَتِہِمْ۔ لوگ اپنی آیت یعنی جماعت سمیت نکل آئے۔
اصطلاح میں الفاظ وحروف کا وہ مجموعہ جس کا مطلع یعنی آغاز اور مقطع یعنی اختتام قرآن کریم کی کسی سورت میں درج ہو۔یعنی قرآن کریم کی سورت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس کا اپنا آغاز ہے اور اپنی انتہاء بھی۔اور ہر آیت، اگلی وپچھلی آیت سے گہرا تعلق بھی رکھتی ہے۔قرآن مجید میں کل چھ ہزار دو سو آیات ہیں ۔ علماء کا ان کی تعداد میں اختلاف وقف کا ہے یعنی محض دو آیتوں کو ایک سمجھنے یا ہر آیت کو الگ الگ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔آیات قرآنیہ کی ترتیب توقیفی ہے۔جبریل امین نے جس طرح آپ ﷺ کے قلب اطہر پر اتاریں اسی ترتیب سے آپ ﷺ نے انہیں اپنی نمازوں اور خطبوں میں پڑھا۔یہی ترتیب ملحوظ رکھنا فرض ہے۔ آیت کی ابتداء اور انتہاء کے بارے میں آگاہی بھی آپ ﷺ ہی نے دی ہے۔مثلًا سورہ فاتحہ کو آپ نے سبع مثانی فرمایا۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی تحدید بھی آپ نے فرمائی چنانچہ آپ نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ بِالْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ لَیْلَۃٍ کَفَتَاہُ۔ جس نے رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی تلاوت کی وہ اسے کافی ہوں گی۔ (متفق علیہ)اوریہ بھی فرمایا: تَکْفِیْکَ آیَۃُ الصَّیْفِ الَّتِیْ فِیْ آخِرِ سُوْرَۃِ النِّسَائِ۔ تمہیں آیت صیف ہی کا فی ہوگی جو سورہ نساء کے آخر میں ہے۔(مسند احمد۱؍۲۶) اسی طرح بعض علماء نے ہرسورہ کے شروع میں حروف مقطعات کو بھی آیت شمار کیا ہے۔ سوائے حم عسق کے اسے کوفی علماء نے دو آیتیں قرار دیا ہے اور طس، یس، الر اور المر کو بھی آیت شمار کیا ہے مگر صرف ایک حرف یعنی ق، ن، ص کو آیت شمار نہیں کیا۔ علماء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہر آیت پر وقف سنت ہے جس کی اتباع ضروری ہے۔ آیات کے اعتبار سے قرآن کریم کی عین درمیانی آیت سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۴۵ ہے جو {یأفکون}پر ختم ہوتی ہے۔ کلمات کے اعتبار سے نصف سورہ الحج کی آیت نمبر ۲۰ میں {والجلود} اور اس کے بعد باقی نصف آخر تک۔ حروف کے اعتبار سے سورہ الکہف میں لفظ {نکراً} میں نون اور اس کا کاف اگلے نصف ثانی کے لئے شروع ہوتا ہے۔یہ بھی ایک رائے ہے کہ {تستطیع}کی عین نصف ہے اور دوسری یہ بھی {ولیتلطف} میں دوسری لام بھی عین نصف ہے۔اسی طرح آیت دلیل، برہان اور معجزہ کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس میں حیران کن احکام، عقائد اور تنبیہ ودروس ہوتے ہیں۔ اور اپنی بلاغت وفصاحت میں بھی منفرد ہوتی ہے۔
سوال:قرآن کے رکوع کس صحابی نے بنائے۔
جواب:رکوع: رکوع کی علامت ’’ع‘‘ ہے جو حاشیہ پر لکھی جاتی ہے۔ رکوع کی علامت کا آغاز دور صحابہؓ کے بعد ہوا۔ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم حجاج بن یوسف نے کی۔ یہ علامت اس جگہ لگائی گئی جہاں سلسلہ کلام ختم ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ معنی کو بھی مدنظر رکھاگیا۔ لہٰذایہ تقسیم بہت حد تک صحیح ہے۔ اس علامت کا مقصد آیات کی ایسی مقدار کا تعین تھا جو نماز کی ایک رکعت میں پڑھی جاسکے۔ اسی لئے اس کو رکوع کانام دیا گیا کہ وہ مقام جہاں نماز میں قراء ت ختم کر کے رکوع کیا جائے۔اس کا تعلق نماز تراویح سے نہ تھا بلکہ بعد میں یہ بات مشایخ کے اپنے اجتہاد و فعل کی طرف منسوب کی گئی۔ فتاوٰی عالمگیریہ میں یہ تحریر ملتی ہے : مشایخ احناف نے قرآن کو پانچ سو چالیس رکوع میں تقسیم کیا ہے اور مصاحف میں اس کی علامات بنادی ہیں تاکہ تراویح میں ستائیسویں شب کو قرآن ختم ہو سکے۔ (فتاویٰ عالم گیری : فصل التراویح: ۹۴) بعدمیں بعض خوش نویسوں نے طویل رکوعوں کی مزید تقسیم کر دی اور ۵۴۰ کی بجائے ۵۵۸ رکوع کے نشان بنا دیے اور طلبہ کی آسانی کے لئے پاک وہند میں شائع ہونے والے قرآن کریم میں ہر رکوع پر مخصوص نمبر لگادئے۔ ع، رکوع کا مخفف ہے اس کے اوپر لکھے ہوئے عدد کا مطلب ہے کہ یہ اس سورہ کا رکوع نمبرہے اور درمیان میں لکھے گئے عدد سے مراد اس رکوع کی کل آیات ہیں اور سب سے نیچے لکھے ہوئے عدد سے مراد اس پارے کے رکوع کا نمبر ہے۔
سوال:قرآن میں آیات نمبر کس صحابی نے لگائے۔
جواب:سپارے: قرآن کی ایک اور تقسیم پاروں کے اعتبار سے بھی کی گئی۔ یہ تقسیم کس نے کی، نام متعین نہیں ہوسکا۔ لیکن یہ تقسیم ایسی عجیب سی ہے جس میں معنی او رسلسلہ کلام کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پارہ بالکل ادھوری بات پر ختم ہو جاتا ہے۔اس لئے یہ تقسیم پسند نہیں کی گئی۔ ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم بچوں کو قرآن پڑھانے میں آسانی کے لئے کی گئی۔ علامہ بدرالدین زرکشیؒ کا کہنا ہے: قرآن پاک کے تیس پارے جو مشہور چلے آرہے ہیں مدارس کے نسخوں میں انہی کارواج ہے۔(البرہان ۱؍۲۵۰) جبکہ ایک اور رائے کے مطابق یہ تقسیم اس لئے کی گئی کہ قرآن، مہینہ میں ختم کیا جا سکے۔ اس رائے کی بنیاد ایک حدیث پر ہے کہ نبی ﷺ نے سیدناعبداللہ بن عمرؓ وسے فرمایا:
"قرآن ایک مہینے میں ختم کیا کر و اور جب انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو فرمایا کہ اچھا تو پھر ایک ہفتہ میں قرآن ختم کیا کرو"۔
بہر حال یہ تقسیم بھی تعداد میں آیتوں کی گنتی کر کے بنائی گئی ہے جو غیر منطقی ہے اس میں پھرمناسب تبدیلی کی گئی۔ ہر پارہ کو تقریباً دوبرابر حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اور پھر چار حصوںمیں -جو ربع اور نصف سے معروف ہیں۔ مجمع الملک فہد سے شائع ہونے والے قرآن مجید میں یہی ترتیب سیپارہ بہتر کردی گئی ہے ۔ ہر آدھے پارے کو حزب قرار دیا گیا ہے۔ ابتداء سے انتہاء قرآن کریم تک ان احزاب کو مسلسل اور ترتیب وار شمار کیا گیا ہے اور پھر ہر حزب کو چار حصوں میں تقسیم کرکے آسانی کردی گئی ہے۔
سوال:قرآن پاک کاترجمہ کس صحابی نے کس کس زبان میں کیا۔
جواب:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا، کیونکہ دعوت و تبلیغ اور باہمی مکالمہ میں تاثیر اور قوت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب پیغام کی زبان آسان، نرم اور قابل فہم ہو، ہم زبانی سے اُنسیت میں اضافہ ہوتا ہے، اجنبیت دور ہو جاتی ہے اور گفتگو کامقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (م 44 ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ، تاکہ یہود سے انہی کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور انہی کی زبان میں ان کے خطوط کا جواب دیا جاسکے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
‘‘ فتعلّمت کتا بھم مامرّت بی خمس عشرۃ الیلۃ حتی حذ قتۃ و کنت اقراء کتبھم اذا کتبوا الیہ واجیب عنہ ادا کتب ’’(2)
‘‘ پس میں نے ان کی زبان میں لکھنا سیکھ لیا۔ ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کے میں اس میں ماہر ہوگیا۔ جب یہودی کوئی خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لکھتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنا دیتا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب لکھنا ہوتا تو میں وہ لکھ دیتا’’۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک ایرانی عورت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (م 58 ھ) کی خدمت میں استغاثہ لے کر آئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھینا چاہتا ہے اس عورت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔(3)
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھتی تھی تاکہ ان سے براہِ راست تبادلہ خیال کر کے اس کے مسائل کو حل کیا جاسکے ۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے بعض گااجزا کا دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کیا تھا تاکہ عربی زبان سے ناواقف لوگ اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سےمحروم نہ رہ جائیں ۔ چنانچہ علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ ( م 490 ھ) لکھتے ہیں :
‘‘ روی ان الفرس کتبو االی سلمان رضی اللہ عنہ ان یکتب لھم الفاتحۃ بالفار سیۃ فکانو ا یقرء ون ذالک فی الصلوۃ حتیٰ لانت السنتھم للعربیۃ ’’ (4)
‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ بعض نو مسلم ایرانیوں نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ ان کے لیے سورۃ الفاتحہ کو فارسی میں نقل کردیا جائے ، چنانچہ وہ لوگ ( اسی ترجمہ) کو نماز میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ عربی سیکھ گئے ۔’’
اسی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک بڑے فقیہ نے اپنی کتاب ‘‘ النھا یۃ حاشیۃ الھدایۃ ’’ میں مزید تفصیل درج کی ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ( م 33 ھ) نے رسول اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے یہ کام انجام دیا اور ان کے ترجمے کا ایک جز بھی نقل کیا ہے، ‘‘ بنام خداوند بخشا یندہ مہربان’’ یہ بسم اللہ کا ترجمہ ہے۔(5)
شاہان عالم کی طرف بھیجے جانے والے سفراء کا معجزانہ طور پر انہیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانابھی دعوت و تبلیغ او رمکالمے میں زبان کی یکسانیت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ (6)
اس کے علاوہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قوموں کی طرف داعی او رمبلغ بنا کر روانہ فرمایا اس میں بھی یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتِ عملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ وہ مبلغ اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں بصورتِ دیگر وہ اس قوم کی زبان، رسم و رواج اور کلچر سے آگاہ ہوں۔ بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بین المذاہب مکالمے کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی باقائدہ تربیت فرمائی ۔
سوال:قرآن کی تفسیرکس صحابہ نے کی۔
جواب:علمائے کرام کہتے ہیں کہ :تفسیر کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے کیونکہ اگر ایک مقام پر کسی چیزکا اجمالاذکر ہوا ہے تو دوسرے مقام پر تفصیل سے ذکر ہوگاـ پھراگر ہمیں قرآن کی کسی آیت سے تفسیر نہ ملے توہم اسے سنت سے تلاش کریں گئے کیونکہ سنت قرآن کی شارح اور اس کی وضاحت کرنے والی ہے ـ اور اگر ہمیں قرآن اور سنت دونوں میں تفسیر نہ ملے توہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کی طرف رجوع کریں گئے ، وہ اسے دوسروں سے زیادہ جاننے والے تھے کیونکہ نزول کے وقت انھیں ہی قرائن و احوال کا پورا پورا علم تھا اور اس لیے بھی کہ ان کا فہم پختہ ، علم صحیح اور عمل صالح تھا ، خاص کر جلیل القدر صحابہ کرام کا جیسے چاروں خلفائے راشدین اور ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم ـ پھر اگر ان کے کلام میں بھی تفسیر نہ ملے تو ہم تابعین رحمہ اللہ عنہم کے اقوال کی طرف رجوع کریں گئے جنھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیا ، نیز عربی لغت کی طرف بھی جس میں قران نازل ہواـ
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تفسیر چار پہلوؤں پر ہو سکتی ہے ،
ایک پہلو یہ ہے کہ وہ کلام ، عربوں میں معروف ہوـ
دوسرا یہ کہ تفسیرایسی ہو کہ کوئی شخص اس کی لاعلمی کا عذر نہ کس سکے ،
تیسرا یہ کہ علماء جانتے ہوں
اور چوتھا پہلو یہ ہے کہ جس کی تفسیرکی اللہ تعالٰی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر کوئی اسے جاننے کا دعوٰی کرے تو وہ جھوٹا ہے
تفسیرالطبری :54/1
مقدمہ تفسیرابن کثیر:1/4،3
محض رائے سے تفسیر کرنا (تفسیربالرائے ) بلکل حرام ہے
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
سورة الأعراف (33)
"کہ دیجیے :بے شک میرے رب نے بےحیائی کی باتوں کو حرام ٹہرایا ہے ، چاہے وہ ظاہر ہوں یا چھپی ہوئی اور گناہ کو اور ناحق ظلم کو بھی اور یہ (بھی حرام ہے ) کہ تم اللہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ (بھی حرام ہے )کہ تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہو جو تم نہیں جانتے "
اور حدیث میں ہے :
" مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ "
"جس نے قرآن میں اپنی رائے سے بات کی یا ایسی بات کی جسے وہ جانتا نہیں تھا تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے "
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے ـ
جامع الترمزی ، تفسیر القران ، باب مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ 2951
حوالہ جات:
کیا قرآن میں زبرزیر بعد میں داخل کیا گیاہے؟ [دستاویزات] - URDU MAJLIS FORUM
قرآن کریم اور تلاوت کے آداب [دستاویزات] - URDU MAJLIS FORUM
جمع قرآن اور اس کی تدوین - صفحہ 3 - URDU MAJLIS FORUM
جزاک اللہ خیرا فی الدنیا ولآخرۃ
اللہ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے۔آمین
اللہ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے۔آمین
No comments:
Post a Comment