اللہ کے اس بندے کی شخصیت پڑھیں تو لگتا ہے کوئی بدری صحابی تھا جسے اللہ نے بعد میں اپنے ایک اہم کام کے لئے بچا کر رکھ دیا تھا۔حضرت صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ تکریت کے ایک قلعہ میں پیدا ہوئے تھے، گو کہ ان کی تربیت مکمل فوجی ماحول میں ہوئی لیکن ان کی ہمیشہ کی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ ایک عالم بنیں اور ہوتی بھی کیوں نہ کہ اس زمانے کے سب سے بہترین انسان نورالدین زنگی نے ان کی تربیت خود کی تھی۔آپ نے کم عمری ہی میں قران حفظ کر لیا تھا اور آپ خود فقہ کے شافعی تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب عیسائی ایک بار پھر سے زور پکڑتے جا رہے تھے اور کوئی دن ایسا نہ تھا جب آپ ان کی فتوحات کی خبریں نہ سنتے ہوں۔ ان کی والدہ کا بیان ہے کہ جب آپ ان کے پیٹ میں تھے جو انہوں نے خواب دیکھا کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ان کے اندر ہے۔
پھر دمشق نے وہ حالات دیکھے کہ جرائم عام ہوتے جاتے تھے جس کا حل نور الدین نے یہ نکالا کہ بہت کم عمری میں ہی صلاح الدین ایوبی کو دمشق کی پولیس کا افسر مقرر کر دیا اور وہ جانتے تھے کہ یہی ایک شخص امن واپس لا سکتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا ایک سالار کو تیار ہوتے دیکھ رہی تھی کیونکہ عالمِ اسلام کو بہت بڑے بڑے فیصلے مقصود تھے جو صلاح الدین کے ہاتھوں ہونے تھے۔ خیر، دمشق میں حالات بہتر ہوتے گئے اور جرائم کا خاتمہ ہو گیا لیکن یہ خبریں ملیں کہ مصر، عیسائیوں کے ہاتھوں فتح ہو گیا ہے۔ وہاں کے خلیفہ نے اپنی بیوی کے بال کاٹ کر نور الدین کو بھیجے جس کا مطلب تھا کہ ہم اپنی خواتین کی حفاظت اب نہیں کر سکتے، ہماری مدد کی جائے لیکن وہ چونکہ فاطمی تھے اس لئے نورالدین ان کی مدد نہ کرنا چاہتے تھے۔ صلاح الدین ایوبی کو کہا گیا لیکن ان کے اپنے الفاظ ہیں کہ میں اس وقت جانا نہیں چاہتا تھا مجھے ڈر تھا کہ میں مار دیا جاؤں گا۔لیکن وہ وہاں گئے اور مصر کو عیسائیوں سے آزاد کروایا، خلیفہ جو پہلے تھا وہی رہا لیکن خلیفہ کے ساتھ رہنے والے شخص جس کا نام انگریزی میں شرکو ہے کا انتقال ہوا تو لوگوں کی نظریں صلاح الدین پر لگی تھیں۔ پھر صرف ۳۲ برس کی عمرمیں مصر کی سب سے طاقتور شخصیت حضرت صلاح الدین ایوبی تھے۔
نورالدین زنگی کا انتقال ہوا تو شام میں عیسایئت ایک بار پھر سے زور پکڑنے لگی، مسلمان خود عیسائیوں کے حامی بننے لگے تھے،یہ وہ وقت تھا جب صلاح الدین ایوبی نے اسلام کے لئے اپنی مہمات کا آغاز کیا۔ تاریخ میں بہت سے مسلم فاتحین گزرے ہیں لیکن کسی نے بھی مسلمانوں سے لڑنے میں اتنا وقت نہیں لگایا۔ صلاح الدین ایوبی نے دس برس تک مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لئے ان کے ساتھ جنگیں کیں۔ان سب کی حالت ٹھیک کرنے میں دس برس سے زیادہ لگے جو آپس میں اتفاق نہیں رکھتے تھے جو عیسائیوں کے ساتھ تھے کیونکہ اسلام کو ابھرنے کے لئے اتفاق کی بہت ضرورت تھی۔
ریجنالڈ ڈی شیٹلون نے ایک لشکر اکٹھا کیا اور مکہ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی۔ اس کے الفاظ تھے کہ جب میں مکہ پہنچوں گا تو کعبہ کو مسمار کے زمین برابر کر دوں گا اور اس کے بعد مدینہ جاؤں گا اور وہاں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر کے نعوذباللہ وہاں سے اس اونٹ کے چرواہے کو نکالوں گا اور اس کا جسم تمام مسلمانوں کو دکھاؤں گا۔ بھلا ایسا ہو سکتا تھا کہ کوئی بری نظر سے بھی ان مقامات کی طرف دیکھے؟صلاح الدین ایوبی نے اپنی تلوار ہوا میں بلند کی اور کہا کہ اللہ کی قسم میں اس شخص کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گا۔صلاح الدین نے حسام الدین کی سالاری میں ایک لشکر بھیجا جس نے سمندر کے راستے جا کر ریجنالڈ کو شکست دی، ریجنالڈ جان بچانے میں کامیاب رہا جبکہ اس کے ساتھ موجود لوگوں کو قید کر کے مدینہ لایا گیا اور مدینہ میں ان تمام کو قتل کر دیا گیا۔
چار برس بعد اسی ریجنالڈ نے مصر سے شام جانے والے ایک مسلمان قافلے پر حملہ کر کے عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئے معاہدے کو توڑ دیا۔ صلاح الدین نے ایک بار پھر سے اس کو قتل کھانے کی قسم کھائی اور جس کا نتیجہ مشہور حطین کی جنگ کی صورت میں نکلا۔ اس بار لشکر کے سپہ سالار خود صلاح الدین ایوبی تھے، جبکہ عیسائیوں کی جانب سے بھی ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لئے نکلا۔ صلاح الدین ایوبی کو مشورے دئیے گئے کہ ہم ان کے شہروں پر حملے جاری رکھتے ہیں لیکن انکا جواب تھا کہ نہیں ہم اس لشکر کا مقابلہ کریں گے صلاح الدین نے یہاں فرمایا کہ اے مسلمانوں! مجھے خوش کرنے کے لئے مت لڑنا، اللہ کو خوش کرنے کے لئے لڑنا۔عیسائیوں کا لشکر مسلمانوں سے بڑا تھا اور وہ مکمل طور پر خود کو محفوظ کئے ہوئے تھے۔ صلاح الدین نے یہاں اپنی جنگی ذہانت کا استعمال کیا اور عیسائیوں کو ہی تاثر دینے کے لئے کہ مسلمان سمندر کے سامنے بے بس ہوجائیں گے انہوں نے سمندر کے سامنے صف بندی کی، جو صلاح الدین نے چاہا تھا وہی عیسائی سمجھے اور شام تک مسلمان تیر اندازوں کے مسلسل حملوں کے سامنے بے بس ہو گئے۔عیسائی سوچتے تھے کہ رات ان کے لئے کچھ اچھا لائے گی اور کچھ بہتری پیدا ہوگی لیکن صلاح الدین کی فوج نے اس طرح سے ان کو جکڑا کہ ایک انسان تو درکنار ایک چیونٹی بھی بنا دکھے نہیں جا سکتی تھی۔
اگلی صبح، ہوا، عیسائیوں کی سمت میں چل رہی تھی، یہ موقع تھا جب صلاح الدین ایوبی نے وہاں موجود جھاڑیوں کو آگ لگا دی، پچھلی رات کی پسپائی اور اس کے بعد برداشت سے باہر یہ دھواں، عیسائی ہمت ہار رہے تھے جب صلاح الدین نے آخری وار کیا اور وہ یہ تھا کہ صلیبی لشکر میں موجود صلیب پر قبضہ کیا جائے۔ یہ وہ صلیب تھی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کو اسی پر سولی دی گئی تھی۔ اور عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ جس لشکر میں یہ صلیب موجود ہوگی اس کو شکست نہیں ہوگی اور گزشتہ بیس معرکے وہ اسکی برکت کی وجہ سے ہی جیتے تھے۔صلاح الدین ایوبی نے ایک پورا دستہ اس پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا جس نے کامیابی سے اس صلیب پر قبضہ کر لیا اور عیسائی لشکر میں 150 کے علاوہ باقی تمام لوگوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔اسلامی لشکر نے اب ان باقی 150 پر حملہ کیا، صلاح الدین نے یہ سب دیکھ رہے تھے، ان کے بھائی نے کہا، الحمدللہ، ہم جیت گئے لیکن صلاح الدین نے جواب دیا، ابھی نہیں۔ایک بار پھر سے مسلمانوں نے حملہ کیا اور عیسائی پسپا ہوکر پیچھے ہٹے، صلاح الدین کے بھائی نے پھر کہا، ہم جیت گئے۔ صلاح الدین نے جواب دیا، نہیں، ابھی نہیں، جب قلب میں موجود بادشاہ کا یہ خیمہ گر جائے گا تب ہمیں فتح ہوگی اور جس وقت صلاح الدین کی زبان سے یہ الفاظ نکل رہے تھے اسی وقت وہ خیمہ گرا اور صلاح الدین کا سر اسی وقت سجدے میں گر گیا۔علماء اور تاریخ داان کہتے ہیں، یرموک میں اسلامی لشکر کی فتح کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کی طرف دیکھا جائے تو حطین کی جنگ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی فتح تھی۔جنگ کے بعد صلاح الدین کے لئے ایک خیمہ نصب کیا گیا وہاں عیسائی بادشاہ اور ریجنالڈ کو پیش کیا گیا، بادشاہ پیاسا تھا اس لئے صلاح الدین نے پینے کے لئے اس کو پانی دیا، بادشاہ نے پی کر پانی ریجنالڈ کو دے دیا تو صلاح الدین نے فرمایا کہ یہ پانی تم نے اس کو دیا میں نے نہیں کیونکہ کسی کو پانی دینے کا مطلب ہے اس کو پناہ میں لینا۔اس کے بعد صلاح الدین، ریجنالڈ سے مخاطب ہوئے اور اس کو یاد دلوایا کہ اس نے کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں، اس کو یاد کروایا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ نے بارے میں کیا بکواس کی تھی، ریجنالڈ نے جواب دیا کہ بادشاہ یہی سب کرتے ہیں۔ صلاح الدین نے ریجنالڈ کو اسلام کی پیشکش کی جس کو اس نے ٹھکرا دیا۔صلاح الدین نے پوچھا، جانتے ہو میں کون ہوں؟ اور خود ہی جواب دیا، میں رسول اللہ ﷺ کا ایلچی ہوں۔انہوں نے جو قسم کھائی تھی وہ پوری کی اور ریجنالڈ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔
یہاں سے لشکر نے پیشقدمی کی اور ایکر، توران، ارسوف، بیروت، نابلس، حیفہ، اور آس پاس کے تمام علاقے فتح کر کےعیسائیوں کے کمک کے تمام راستے بند کر دئیے۔ یہاں سے صلاح الدین نے اپنی زندگی کے اصل مقصد کی طرف پیشقدمی کی جو کہ تمام مقدس مقامات کو فتح کر کے آزاد کرنا تھا۔ان سے پوچھا گیا کہ آپ مصر، شام، لبنان کے سلطان ہیں اور آپ کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں کیسے مسکراؤں جبکہ بیت المقدس عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے۔نجومیوں نے بتایا کہ اگر آپ نے بیت المقدس کی طرف پیشقدمی کی تو آپکی ایک آنکھ ضائع ہو سکتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے جواب دیا:
“تم میری ایک آنکھ کی بات کرتے ہو، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بیت المقدس کی طرف پیشقدمی کروں گا پھر بے شک مجھے بیت المقدس میں اندھا ہو کر داخل ہونا پڑے۔”6 روز تک یروشلم پر حملے کئے، 26 رجب کو بالیان نے صلاح الدین نے ملاقات کی اور حفاظت سے وہاں سے نکل جانے کی شرائط کے بارے میں بات کرنا چاہی، صلاح الدین نے جواب دیا کہ میں نے پہلے شرائط کی بات کی تھی، تم نے اس سے انکار کیا، اب کوئی شرائط نہیں، یہ شہر اب ہمارا ہے۔ بالیان نے جواب دیا کہ اگر تمہیں منظور نہیں تو شہر میں موجود پانچ ہزار مسلمانوں کو قتل کر کے ہم مسجد تباہ کر دیں گے۔صلاح الدین ایک فاتح تھے، چاہتے تو تو کہہ سکتے تھے کہ جاؤ کر لوں جو ہو سکتا ہے شہر تو میں فتح کر ہی چکا ہوں لیکن انہوں نے بالیان کی شرائط مان لیں۔یہ اس عظیم شخصیت کی عظمت تھی کہ جس نے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی کیونکہ مسلمان جب مکہ میں داخل ہوئے تو وہ گلیاں ان کے سامنے تھیں جہاں بلال رضی اللہ کو ایسے گھسیٹا گیا تھا کہ ان کی کھال ان کے جسم سے الگ ہو جاتی تھی جہاں دو معصوم لڑکیوں کو اس لئے قتل کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے کلمہ پڑھا تھا۔ کیونکہ وہاں جب مکہ فتح ہوا تو ایک صحابی نے کہا تھا “الیومُ یومُ ملحمہ” یعنی آج بدلے کا دن ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا “الیومُ یومُ المرحمہ” یعنی آج رحم کرنے کا دن ہے۔ صلاح الدین کے ساتھ موجود مسلمان بھی جانتے تھے کہ 88 برس پہلے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا، شیر خوار بچوں کو ان کی ماؤں سے چھین کر دیواروں پر پٹخا گیا تھا، کیسے ان خواتین کی عزت و ناموس سے 88 برس پہلے کھیلا گیا تھا، کیسے مسجد کے عین اندر ستر ہزار مسلمانوں کا خون ایسے بہایا گیا تھا کہ قاتلوں کے گھٹنوں تک خون پہنچ گیا تھا، صلاح الدین چاہتے تو وہی سب دہرا سکتے تھے لیکن ہروشلم نے 88 برس تک ایک ایسے انسان کا انتظار کیا تھا جو آکر اس شہر کو ظلم سے نجات دلوا کر دوبارہ وہاں اللہ اکبر کی گونج پیدا کرے گا۔ 27 رجب کو صلاح الدین نے یروشلم میں قدم رکھا اور 27 رجب کو ہی آپ ﷺ نے معراج کے واقعے کے وقت یروشلم میں قدم رکھا تھا۔
“تم میری ایک آنکھ کی بات کرتے ہو، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بیت المقدس کی طرف پیشقدمی کروں گا پھر بے شک مجھے بیت المقدس میں اندھا ہو کر داخل ہونا پڑے۔”6 روز تک یروشلم پر حملے کئے، 26 رجب کو بالیان نے صلاح الدین نے ملاقات کی اور حفاظت سے وہاں سے نکل جانے کی شرائط کے بارے میں بات کرنا چاہی، صلاح الدین نے جواب دیا کہ میں نے پہلے شرائط کی بات کی تھی، تم نے اس سے انکار کیا، اب کوئی شرائط نہیں، یہ شہر اب ہمارا ہے۔ بالیان نے جواب دیا کہ اگر تمہیں منظور نہیں تو شہر میں موجود پانچ ہزار مسلمانوں کو قتل کر کے ہم مسجد تباہ کر دیں گے۔صلاح الدین ایک فاتح تھے، چاہتے تو تو کہہ سکتے تھے کہ جاؤ کر لوں جو ہو سکتا ہے شہر تو میں فتح کر ہی چکا ہوں لیکن انہوں نے بالیان کی شرائط مان لیں۔یہ اس عظیم شخصیت کی عظمت تھی کہ جس نے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی کیونکہ مسلمان جب مکہ میں داخل ہوئے تو وہ گلیاں ان کے سامنے تھیں جہاں بلال رضی اللہ کو ایسے گھسیٹا گیا تھا کہ ان کی کھال ان کے جسم سے الگ ہو جاتی تھی جہاں دو معصوم لڑکیوں کو اس لئے قتل کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے کلمہ پڑھا تھا۔ کیونکہ وہاں جب مکہ فتح ہوا تو ایک صحابی نے کہا تھا “الیومُ یومُ ملحمہ” یعنی آج بدلے کا دن ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا “الیومُ یومُ المرحمہ” یعنی آج رحم کرنے کا دن ہے۔ صلاح الدین کے ساتھ موجود مسلمان بھی جانتے تھے کہ 88 برس پہلے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا، شیر خوار بچوں کو ان کی ماؤں سے چھین کر دیواروں پر پٹخا گیا تھا، کیسے ان خواتین کی عزت و ناموس سے 88 برس پہلے کھیلا گیا تھا، کیسے مسجد کے عین اندر ستر ہزار مسلمانوں کا خون ایسے بہایا گیا تھا کہ قاتلوں کے گھٹنوں تک خون پہنچ گیا تھا، صلاح الدین چاہتے تو وہی سب دہرا سکتے تھے لیکن ہروشلم نے 88 برس تک ایک ایسے انسان کا انتظار کیا تھا جو آکر اس شہر کو ظلم سے نجات دلوا کر دوبارہ وہاں اللہ اکبر کی گونج پیدا کرے گا۔ 27 رجب کو صلاح الدین نے یروشلم میں قدم رکھا اور 27 رجب کو ہی آپ ﷺ نے معراج کے واقعے کے وقت یروشلم میں قدم رکھا تھا۔
عیسائیوں نے یہ سنا تو غم کے مارے ان کا ایک پوپ صدمے سے مر گیا، ایک پوپ نے ایک خط تمام لوگوں کو لکھا کہ تمام قابل لوگوں کو جنگ کے لئے بھیجا جائے، جرمنی سے فریڈرک نے دس لاکھ کا لشکر بھیجا لیکن اللہ نے اس کو راستے ہی میں غرق کر دیا اور وہ کبھی کہیں پہنچ نہیں سکا۔انگلستان سے رچرڈ، اور فرانس سے فلپ نے مجموعی طور پر چھ لاکھ کا لشکر اکٹھا کیا۔صلاح الدین نے تمام مسلمان حکمرانوں کو خط لکھے لیکن کسی نے بھی مدد نہیں کی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت تین مسلم خلفاء موجود تھے لیکن انہوں نے صلاح الدین کی مدد سے انکار کر دیا۔ صلاح الدین عالمِ اسلام کی اس حالت پر روتے تھے اور آج تاریخ کو یاد نہیں کہ وہ تین خلفاء کون تھے۔ کسی کو ان کے نام یاد نہیں۔دو برس تک عیسائیوں کا یہ گھیراؤ قائم رہا وہ اس طرح کیموفلاج تھے کہ صلاح الدین ان پر حملہ کرنے میں ناکام رہتے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب صلاح الدین کو لوگوں نے ایسے دیکھا جیسے وہ ایک ماں ہوں اور ان کا بچہ گُم ہو گیا ہو۔ جس وقت تین خلفاء اپنے اپنے محلوں میں سکون کی نیند سوئے ہوتے تھے، صلاح الدین ایوبی اپنے لشکر کی صفوں میں چکر لگا رہے ہوتے تھے، جب یہ خلفاء مزیدار پکوانوں سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہوتے تھے، اسلام کا یہ رجلِ عظیم ایک عام سے خیمے میں وہی کھانا کھا رہا ہوتا تھا جو ایک عام فوجی کو ملتا تھا۔دو سال تک محاصرے بعد مسلمانوں نے عیسائیوں سے معاہدہ کر لیا اور اس کے بعد ایکر میں موجود ہر مرد، عورت اور بچے کو عیسائیوں نے قتل کر دیا۔ایک بار جب رچرڈ، صلاح الدین ایوبی کے ساتھ بیٹھا تھا تو اس کا بیان ہے کہ صلاح الدین نے دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد رونا شروع کر دیا، انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ میرے پاس جو کچھ تھا میں نے تیرے راستے میں خرچ کر دیا، اب یہی باقی ہے کہ میں بھی تیرے پاس آجاؤں۔ اس کے بعد وہ اتنا روئے کہ ان کی داڑھی تر ہو گئی، اس کے بعد جہاں وہ نماز پڑھ رہے تھے وہ جگہ بھی تر ہو گئی۔اس سے اگلی صبح یہ خبر ملی کہ عیسائیوں نے محاصرہ اٹھا لیا ہے اور رچرڈ کے الفاظ یہ تھے کہ جب تک صلاح الدین جیسا انسان یروشلم کی حفاظت کر رہا ہے کوئی اس کو فتح نہیں کر سکتا۔
معاہدے کے بعد صلاح الدین دمشق واپس آگئے اور پھر ایک دن جب ٹھنڈ زیادہ تھی اور آپ حاجیوں کے کیمپ سے واپس آئے تھے تو آپکی طبیعت خراب ہو گئی۔دن بدن طبیعت بگڑتی گئی اور صلاح الدین کمزور ہونا شروع گئے لیکن روایات میں ہے کہ جتنا وہ کمزور ہوئے اتنا زیادہ اللہ پر انکا یقین پختہ ہوتا گیا۔نویں دن، صلاح الدین ہر غشی طاری ہو گئی۔ اس کے بعد تین روز تک شیخ جعفر نے ان کے سرہانے قرآن کی تلاوت کی۔ ایک دن جب شیخ جعفر اس آیت پر پہنچے جس کا مطلب تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو صلاح الدین نے کلمہ شہادت پڑھا اور اسلام کا یہ عظیم مرد پورے دمشق کو روتا بلکتا چھوڑ گیا۔دمشق میں یہ حالت تھی کہ جیسے کوئی نبی وصال پا گیا ہو۔ خلفائے راشدین کے جانے بعد عالمِ اسلام کے لئے یہ سب سے بڑا نقصان تھا۔ لوگ محبت کرتے تھے صلاح الدین ایوبی سے۔ ان کا انتقال فجر کے وقت ہوا، ظہر کے وقت ان کے جسم کو باہر لایا گیا۔ دمشق حالتِ ماتم میں تھا، یوں محسوس ہوتا تھا کہ دنیا ایک مقام پر آگئی ہے۔لوگ روتے تھے، بلکتے تھے، دھاڑیں مارت تھے، کچھ یہ یقین کرنے کو تیار نہ تھے صلاح الدین کا انتقال ہو گیا ہے اور کچھ نے جب دیکھا تو بے ہوش ہو گئے۔
دنیا میں حضرت صلاح الدین ایوبی ایک دینار اور سینتالیس درہم، ایک گھوڑا اور کچھ جنگی سامان سمیت سارے عالمِ اسلام کو روتا ہوا چھوڑ کر گئے۔سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ مصر، شام، لبنان اور یمن کے سلطان تھے۔ ان کی قبر پر لکھا ہے:۔
۔”اے اللہ! اس شخص کی آخری فتح کے طور پر، اس کے لئے اپنی جنت کے دروازے کھول دے”۔
واللہ اعلم بالثواب۔
No comments:
Post a Comment