Return to Main Pag

Qurani-Soorton-Ka-Nazm-e-Jali

MazameenEQuranHakeem KhulasaQuran QuranKareemKTeesParonKaMukhtasirKhulasa KhulasaTulQuran/Khulasa

SEERATUNNABIS.A.WVOL1

Wednesday, December 28, 2016

ترتیب تلاوت

ترتیب تلاوت

مکمل فہرست
ترتیب تلاوت (Tarteebe-e-Tilawat)
 الم : قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے سب سے پہلے پارے کا نام جو قرآن کریم کی پہلی سورۃ الفاتحہ کی مکمل 7 آیات اور سورۃ البقرہ کی ابتدائی141 آیات پر مشتمل ہے لہذا یہ پارہ کل 148 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے 17 رکوع ہیں۔
سیقول: قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے دوسرے پارے کا نام جو قرآن کریم کی دوسری سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 142 سے لیکر 252 پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل111 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سولہ 16 رکوع ہیں۔
تلك الرسل: قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے تیسرے پارے کا نام جو قرآن کریم کی دوسری سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 253 سے لیکر آخری آیت 286 اور سورۃ آل عمران کی ابتدائی 91 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 125 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سترہ 17 رکوع ہیں۔
لن تنالوا :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے چوتھے پارے کا نام جو قرآن کریم کی تیسری سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 92 سے لیکر آخری آیت نمبر 200 اور سورۃ النساء کی ابتدائی تئیس 23 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 132 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے چودہ 14 رکوع ہیں۔
والمحصنات :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 5 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 4 سورۃ النساء کی آیت نمبر 24 سے لیکر 147 پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 124 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سترہ 17 رکوع ہیں۔
لا یحب اللہ : قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 6 پارے کا نام جو قرآن کریم کی 4 سورۃ النساء کی آیت نمبر 148 سے لیکر آخری آیت نمبر 176 اور سورۃ المائدہ کی ابتدائی بیاسی 82 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 111 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے چودہ 14 رکوع ہیں۔
واذا سمعوا: قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 7 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 5 ویں سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 83 سے لیکر آخری آیت نمبر 120 اور 6 سورۃ الانعام کی ابتدائی 110 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 148 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے انیس 19 رکوع ہیں۔
ولو اننا :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 8 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 66 سورۃ الانعام کی آیت نمبر 111 سے لیکر آخری آیت نمبر 165 اور 7 ویں سورۃ الاعراف کی ابتدائی 87 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 142 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سترہ 17 رکوع ہیں۔
قال الملاء :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 9 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 77 ویں سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 88 سے لیکر آخری آیت نمبر 206 اور 8 ویں سورۃ الانفال کی ابتدائی 40 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 159 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے اٹھارہ 18 رکوع ہیں۔
واعلموا :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 10 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 8 ویں سورۃ الانفال کی آیت نمبر 41 سے لیکر آخری آیت نمبر 75 اور 9 ویں سورۃ التوبہ کی ابتدائی 93 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 128 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سترہ 17 رکوع ہیں۔
یعتذرون :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 11 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 9 ویں سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 94 سے لیکر آخری آیت نمبر 129 اور 10 ویں سورۃ سورہ یونس کی مکمل 109 آیات اور 11 ویں سورۃ سورہ ھود کی ابتدائی 5 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 150 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سولہ 16 رکوع ہیں۔
وما من دابۃ :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 12 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 11 ویں سورۃ سورہ ھود کی آیت نمبر 6 سے لیکر آخری آیت نمبر 123 اور 12 ویں سورۃ سورہ یوسف کی ابتدائی 52 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 170 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سولہ 16 رکوع ہیں۔
وما ابری :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 13 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 122 ویں سورۃ سورہ یوسف کی آیت نمبر 53 سے لیکر آخری آیت نمبر 111 اور 13 ویں سورۃ الرعد کی مکمل 43 آیات اور 14 ویں سورۃ سورہ ابراہیم کی مکمل 52 آیات اور 15 ویں سورۃ الحجر کی پہلی آیت پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 155 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے انیس 19 رکوع ہیں۔
ربما :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 14 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 155 ویں سورۃ الحجر کی آیت نمبر 2 سے لیکر آخری آیت نمبر 99 اور 16 ویں سورۃ النحل کی مکمل 128 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 226 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے بائیس 22 رکوع ہیں۔
سبحان الذی :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 15 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 177 ویں سورۃ الاسرا کی مکمل 111 آیات اور 18 ویں سورۃ الکہف کی ابتدائی 74 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 185 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے اکیس 21 رکوع ہیں۔
قال الم :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 16 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 188 ویں سورۃ الکہف کی آیت نمبر 75 سے لیکر آخری آیت نمبر 110 اور 19 ویں سورۃ سورہ مریم کی مکمل 98 آیات اور 20 ویں سورۃ طٰہٰ کی مکمل 135 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 269 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سترہ 17 رکوع ہیں۔
اقترب :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 17 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 211 ویں سورۃ الانبیاء کی مکمل 112 آیات اور 22 ویں سورۃ الحج کی مکمل 78 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 190 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سترہ 17 رکوع ہیں۔
قد افلح :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 18 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 233 ویں سورۃ المؤمنون کی مکمل 118 آیات اور 24 ویں سورۃ النور کی مکمل 64 آیات اور 25 ویں سورۃ الفرقان کی ابتدائی 20 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 202 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سترہ 17 رکوع ہیں۔
وقال الذین :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 19 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 255 ویں سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 21 سے لیکر آخری آیت 77 اور 26 ویں سورۃ الشعرآء کی مکمل 227 آیات اور 27 ویں سورۃ النمل کی ابتدائی 59 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 343 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے انیس 19 رکوع ہیں۔
امن خلق :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 20 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 277 ویں سورۃ النمل کی آیت نمبر 60 سے لیکر آخری آیت 93 اور 28 ویں سورۃ القصص کی مکمل 88 آیات اور 29 ویں سورۃ العنکبوت کی ابتدائی 44 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 166 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سولہ 16 رکوع ہیں۔
اتل ما اوحی :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 21 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 299 ویں سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 45 سے لیکر آخری آیت 69 اور 30 ویں سورۃ الروم کی مکمل 60 آیات اور 31 ویں سورۃ سورہ لقمان کی مکمل 34 اور 32 ویں سورۃ السجدہ کی مکمل 30 اور 33 ویں سورۃ الاحزاب کی ابتدائی 30 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 179 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے انیس 19 رکوع ہیں۔
ومن یقنت :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 22 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 333 ویں سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 31 سے لیکر آخری آیت 73 اور 34 ویں سورۃ سورہ سبا کی مکمل 54 آیات اور 35 ویں سورۃ فاطر کی مکمل 45 آیات اور 36 ویں سورۃ یٰس کی ابتدائی 21 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 163 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے اٹھارہ 18 رکوع ہیں۔
وما لی :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 23 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 36 ویں سورۃ یٰس کی آیت نمبر 22 سے لیکر آخری آیت 83 اور 37 ویں سورۃ الصافات کی مکمل 182 آیات اور 38 ویں سورۃ ص کی مکمل 88 آیات اور 39 ویں سورۃ الزمر کی ابتدائی 31 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 363 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے سترہ 17 رکوع ہیں۔
فمن اظلم :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 24 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 39 ویں سورۃ الزمر کی آیت نمبر 32 سے لیکر آخری آیت 75 اور 40 ویں سورۃ المؤمن کی مکمل 85 آیات اور 41 ویں سورۃ حم السجدہ کی ابتدائی 46 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 175 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے انیس 19 رکوع ہیں۔
الیہ یرد :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 25 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 411 ویں سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر 46 سے لیکر آخری آیت 54 اور 42 ویں سورۃ الشوریٰ کی مکمل 53 آیات اور 43 ویں سورۃ الزخرف کی مکمل 89 آیات اور 44 ویں سورۃ الدخان کی مکمل 59 آیات اور 45 ویں سورۃ الجاثیہ کی مکمل 37 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 246 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے بیس 20 رکوع ہیں۔
حم :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 26 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 46 ویں سورۃ الاحقاف کی مکمل 35 آیات اور 47 ویں سورۃ سورہ محمد کی مکمل 38 آیات اور 48 ویں سورۃ الفتح کی مکمل 29 آیات اور 49 ویں سورۃ الحجرات کی مکمل 18 آیات اور 50 ویں سورۃ سورہ ق کی مکمل 45 آیات اور 51 ویں سورۃ الذاریات کی ابتدائی 30 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 195 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے اٹھارہ 18 رکوع ہیں۔
قال فما خطبکم :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 27 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 51 ویں سورۃ الذاریات کی آیت نمبر 31 سے لیکر آخری آیت 60 اور 52 ویں سورۃ الطور کی مکمل 49 آیات اور 53 ویں سورۃ النجم کی مکمل 62 آیات اور 54 ویں سورۃ القمر کی مکمل 55 آیات اور 55 ویں سورۃ الرحمٰن کی مکمل 78 آیات اور 56 ویں سورۃ الواقعہ کی مکمل 96 آیات اور 57 ویں سورۃ الحدید کی مکمل 29 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 399 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے بیس 20 رکوع ہیں۔
قد سمع اللہ :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 28 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 58 ویں سورۃ المجادلہ کی مکمل 22 آیات اور 59 ویں سورۃ الحشر کی مکمل 24 آیات اور 60 ویں سورۃ الممتحنہ کی مکمل 13 آیات اور 61 ویں سورۃ الصف کی مکمل 14 آیات اور 62 ویں سورۃ الجمعہ کی مکمل 11 آیات اور 63 ویں سورۃ المنافقون کی مکمل 11 آیات اور 64 ویں سورۃ التغابن کی مکمل 18 آیات اور 65 ویں سورۃ الطلاق کی مکمل 12 آیات اور 66 ویں سورۃ التحریم کی مکمل 12 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 137 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے بیس 20 رکوع ہیں۔
تبارك الذی :قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 29 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 677 ویں سورۃ الملک کی مکمل 30 آیات اور 68 ویں سورۃ القلم کی مکمل 52 آیات اور 69 ویں سورۃ الحاقہ کی مکمل 52 آیات اور 70 ویں سورۃ المعارج کی مکمل 44 آیات اور 71 ویں سورۃ سورہ نوح کی مکمل 28 آیات اور 72 ویں سورۃ الجن کی مکمل 28 آیات اور 73 ویں سورۃ المزمل کی مکمل 20 آیات اور 74 ویں سورۃ المدثر کی مکمل 56 آیات اور 75 ویں سورۃ القیامہ کی مکمل 40 آیات اور 76 ویں سورۃ الدہر کی مکمل 31 آیات اور 77 ویں سورۃ المرسلات کی مکمل 50 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 431 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے بائیس 22 رکوع ہیں۔
عم قرآن کریم کے تیس پاروں میں سے 30 ویں پارے کا نام جو قرآن کریم کی 788 ویں سورۃ النباء مکمل 40 آیات اور 79 ویں سورۃ النازعات مکمل 46 آیات اور 80 ویں سورۃ عبس مکمل 42 آیات اور 81 ویں سورۃ التکویر مکمل 29 آیات اور 82 ویں سورۃ الانفطار مکمل 19 آیات اور 83 ویں سورۃ المطففین مکمل 36 آیات اور 84 ویں سورۃ الانشقاق مکمل 25 آیات اور 85 ویں سورۃ البروج مکمل 22 آیات اور 86 ویں سورۃ الطارق مکمل 17 آیات اور 87 ویں سورۃ الاعلیٰ مکمل 19 آیات اور 88 ویں سورۃ الغاشیہ مکمل 26 آیات اور 89 ویں سورۃ الفجر مکمل 30 آیات اور 90 ویں سورۃ البلد مکمل 20 آیات اور 91 ویں سورۃ الشمس مکمل 15 آیات اور 92 ویں سورۃ اللیل مکمل 21 آیات اور 93 ویں سورۃ الضحیٰ مکمل 11 آیات اور 94 ویں سورۃ الم نشرح مکمل 8 آیات اور 95 ویں سورۃ التین مکمل 8 آیات اور 96 ویں سورۃ العلق مکمل 19 آیات اور 97 ویں سورۃ القدر مکمل 5 آیات اور 98 ویں سورۃ البینہ مکمل 8 آیات اور 99 ویں سورۃ الزلزال مکمل 8 آیات اور 100 ویں سورۃ العادیات مکمل 11 آیات اور 101 ویں سورۃ القارعہ مکمل 11 آیات اور 102 ویں سورۃ التکاثر مکمل 8 آیات اور 103 ویں سورۃ العصر مکمل 3 آیات اور 104 ویں سورۃ الھمزہ مکمل 9 آیات اور 105 ویں سورۃ الفیل مکمل 5 آیات اور 106 ویں سورۃ قریش مکمل 4 آیات اور 107 ویں سورۃ الماعون مکمل 7 آیات اور 108 ویں سورۃ الکوثر مکمل 3 آیات اور 109 ویں سورۃ الکافرون مکمل 6 آیات اور 110 ویں سورۃ النصر مکمل 3 آیات اور 111 ویں سورۃ اللھب مکمل 5 آیات اور 112 ویں سورۃ الاخلاص کی مکمل 4 آیات اور 113 ویں سورۃ الفلق کی مکمل 5 آیات اور 114 ویں سورۃ الناس مکمل 6 آیات پر مشتمل ہے لہزا یہ پارہ کل 564 آیات پر مشتمل ہے اور اس کے انتالیس 39 رکوع ہیں۔

قرآن کے متعلق سوالات و جوابات

زبیراحمد نے 'قرآن - شریعت کا ستونِ اوّل' میں ‏جنوری 11, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا
سوال: قرآن کی کتابی شکل کس صحابی کے دورمیں آئی۔
جواب: قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں کتابی شکل میں آچکاتھا حفاظت قرآن کا اصل دارومدار تو حفظ تھا مگر نبی اکرم ﷺ نے قرآن کی کتابت کا بھی اہتمام کرڈالا۔ یہ بھی قرآن مجید کا جمع کرنا ہے۔نزول کے بعد آپ ﷺ کاتبان وحی کو جبریل امین کی ہدایت کے مطابق فرماتے کہ یہ آیات نازل ہوئی ہیں جنہیں فلاں سورہ کی فلاں آیت کے سرے پر رکھو اور لکھو۔اس طرح قرآن کریم کے ایک ایک حرف، آیت، سورۃ کو کتابت کے ذریعے آپ ﷺ نے صحیفوں اور سطور میں ترتیب دے کرمحفوظ کردیا۔اس کتابت کے بارے میں سیدنا زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں:
قرآن کی جو آیات نازل ہوتیں آپ ﷺ مجھے لکھوا دیتے۔اس کے بعد میں آپ ﷺکو سناتا، اگر اصلاح کی ضرورت ہوتی تو آپﷺ اصلاح فرما دیتے ۔ پھر اس کے بعد اس لکھے ہوئے کو میں لوگوں کے سامنے لاتا۔جو کچھ بھی لکھا جاتا وہ آپﷺ کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا۔ اس دور میں قرآن کاغذوں پر لکھا جاتا نہ ہی باقاعدہ مصحف کی صورت میں تھا بلکہ متفرق طور پر پتھر کی تختیوں ، چمڑے کے ٹکڑوں ، درخت کی چھا لوں اور چوڑی ہڈیوں وغیرہ پر لکھا جاتا تھا۔(مناہل العرفان اززرقانی:۲۳۹) اسی لئے تو سیدنا زید ؓ کا یہ کہنا ہے: قبض النبی ﷺ ولم یکن القرآن جمع فی شیء۔ آپﷺ کا انتقال ہوا اور قرآن کریم کسی بھی شے میں جمع نہ تھا۔(فتح الباری ۹؍۹)
قتادۃؓ نے سیدنا انسؓ بن مالک سے پوچھا کہ دور نبوی ؐ میں قرآن کس نے جمع کیا؟ انہوں نے کہا : چار آدمیوں نے جو انصاری تھے؛ ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ ، معاذ بن جبل ؓ اورابوزیدؓ ۔(صحیح بخاری۲؍۴۷۸) 
سوال:قرآن میں زیرزبرکس صحابی نے لگائے۔
جواب: قران میں زبرزیر تب سے ہے جب سے قران ہے، البتہ اسے لکھا بعدمیں گیا ہے،اوربعدمیں لکھنے کے لئے دلیل موجودہے،لکھنے کی دلیل میں آگے پیش کروں گا پہلے اس بات کے دلائل سامنے رکھ دیں کہ قران مجید میں زیرزبرنیانہیں ہے،ملاحظہ ہو:
پہلی دلیل:
قران مجید ہم تک تلاوت ہوکرپہنچاہے،سب سے پہلے اللہ نے اس کی تلاوت کی ،اللہ کا ارشادہے:
{ تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ } [الجاثية: 6]
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم تم پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں (یعنی پڑھتے ہیں)۔

اللہ کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اس قران کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا:
{وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195)} [الشعراء: 192 - 195]
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ،آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں ،صاف عربی زبان میں ہے۔

اس کے بعدجبرئیل علیہ السلام نے بھی قران مجید کو پڑھ کراورتلاوت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا ہے، بخاری میں ہے:
وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ(صحیح البخاری (1/ 8) رقم 6)
یعنی جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہررات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اورآپ کوقران پڑھاتے تھے۔

اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران پڑھ کر ہی صحابہ کرام کوبتلایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیرزبرزیرکے قران کی تلاوت یا اسے پڑھنا ممکن ہے ؟؟؟ ہرگزنہیں !
مثال کے طورپر آپ کسی بھی شخص سے کہیں کہ سورہ فاتحہ کی آیت '' الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ '' پڑھے، پھراس سے سوال کریں کہ:
تم نے ''الحمد'' کے ''ح'' پرکیا پڑھا ؟
وہ جواب سے گا زبرپڑھا ، اب سوال کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسی ''الحمد'' کو پڑھا تھا توکیا پڑھا تھا؟
یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبرہی پڑھا تھا، اوراسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تلاوت کی اوراس سے پہلے اللہ نے تلاوت کی۔


دوسری دلیل:
زیرزبرلکھنے سے پہلے قران کا جوتلفظ تھا وہی تلفظ اب بھی ہے، اس پرپوری امت کا جماع ہے کسی کا اختلاف نہیں ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیرزبرپہلے ہی سے تھا،البتہ لکھا ہوا نہیں تھابعد میں گیا ہے۔


تیسری دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے قرآنی آیات کے جومعانی تھے وہی معانی اب بھی ہیں ، اگرزبرزیرنیا ہوتاتومعانی بدل جاتے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قران میں زبرزیرپہلے ہی سے موجودتھا البتہ اسے لکھا بعدمیں گیاہے۔


چوتھی دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے ہرحرف پردس نیکی کا ثواب تھا اورزبرزیرلکھنے کے بعد بھی ثواب اتنا ہی ہے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زبرزیرنیانہیں ہے پہلے ہی سے ہے البتہ اس کی کتابت بعدمیں ہوئی ہے۔


پانچویں دلیل:
قران نے پوری دنیا کوچیلنج کیا ہے کہ کوئی بھی قران جیسی کوئی سورة نہیں بنا سکتا،اگرپوری دنیا قران جیسی سورة پیش کرنے سے عاجزہے،توخودمسلمانوں میں یہ طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ قران میں قران ہی جیسی کوئی چیز داخل کریں اوروہ بھی ''الحمد'' سے لیکر ''الناس'' تک؟؟؟
اس سے بھی ثابت ہواکہ زبرزیرکوبعدمیں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قران میں پہلے ہی سے موجودتھا۔


چھٹی دلیل:
صحابہ کرام وازواج مطہرات باقائدہ زبرزیرسے استدلال کرتے تھے، ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ» ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: " مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ "صحيح البخاري (4/ 150 رقم3389)
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ انکی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔
اس حدیث میں غورفرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی پربحث کی ہے اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اورزبرزیرقران میں پہلے ہی سے ہے۔


ساتویں دلیل:
اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ اس قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل نہیں کرسکتے اوربالفرض وہ اگرایسا کرنے کو کوشش کریں گے تو ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیں گے، ارشاد ہے:
{ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47)} [الحاقة: 43 - 47]
(یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ،تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ،پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔

غورکریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل کرسکیں ، اوربالفرض ایسا کرنے پرانہیں سخت وعید سنائی گئی ہے ،تو ایک معمولی انسان کواتنی جرأت کیسے ہوگئی کہ وہ پورے قران میں اپنی طرف سے زبرزیرداخل کردے ۔


آٹھویں دلیل:
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قران مخلوق نہیں ہے ، اب بتائیے کہ جوچیز غیرمخلوق ہے اس میں مخلوق اضافہ کیسے کرسکتی ہے؟؟؟


نویں دلیل:
اللہ نے اس بات کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ قران مجید کواپنی اصلی شکل میں محفوظ رکھے گا،ارشادہے:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } [الحجر: 9]
قران کو ہم نے ناز ل کیا ہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
غورکریں کہ جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لے رکھی ہے ،اس میں کوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے کی جرأت کسے ہوسکتی ہے؟؟؟معلوم ہوا کہ قران اب بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اس میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہیں ہواہے۔
لہٰذا زبرزیرلازمی طورپرقران مجید میں پہلے ہی سے موجودہے البتہ شروع میں اسے لکھا نہیں گیا تھااوربعدمیں اسے لکھ دیا گیا۔



دسویں دلیل:
اگرلکھنے سے کوئی چیز نئی نہیں ہوجاتی،تو لازم آئے گا کہ پورا قران بھی بعدمیں بنایا گیا ہے۔
اس لئے کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوقران پیش کیا وہ لکھا ہوا نہیں تھا ،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقران صحابہ کو پڑھ کرسنایا وہ بھی لکھا ہوانہیں تھا ،البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعدصحابہ کرام نے اسے لکھ لیا،تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ پوراقران بھی اسلام میں منجانب اللہ پہلے ہی سے نہیں تھا اسے صحابہ کرام نے اپنی طرف سے بنایاہے؟؟؟
لہٰذا جس طرح قران کوبعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجاتااسی طرح زبرزیرکوبھی بعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجائے گا۔
تلک عشرة کاملہ۔

اب اگرکوئی کہے کہ ٹھیک ہے کہ زبرزیرپہلے سے موجودتھا اوراس کے لکھنے سے قران میں اضافہ بھی نہیں ہوتا لیکن فی نفسہ یہ لکھنا توایک نیا عمل ہے ، لہٰذا بدعت ہوا۔
توعرض ہے کہ زبرزیرلکھنا بدعت ہرگزنہیں ہے کیونکہ اس کے لکھنے کی دلیل موجودہے ملاحظہ ہو:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: «اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ» سنن أبي داود (3/ 318 رقم3646)
صحابی رسول عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہرچیز کو لکھنے کی اجازت دی ہے اورقران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے تلاوت ہوکرامت کو ملاہے،اورپہلے واضح کیا جاچکا ہے کہ تلاوت زبرزیرکے ساتھ ہی ہوتی ہے،گویا کہ زبرزیربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہی نکلا ہے،لہٰذامذکورہ حدیث میں اس کے لکھنے کا بھی جواز موجودہے۔
لہٰذا قران مجید میں زبرلکھنے پراس حدیث سے دلیل موجودہے۔
سوال:قرآن میں منازل کس صحابی نے لگائیں۔
جواب: انسان کے لئے اللہ تعالی کی ایک خاص نعمت ہے، جس میں موعظت و ہدایت، تفصیل و تکثیر انعامات الٰہی، تقرب ربانی اور کرامات کا دریا موجزن ہے، یہ ہر طرح انسان کے لئے باعث رحمت، باعث برکت، باعث مغفرت اور ہدایت کاملہ ہے،اللہ کی خوشنودی و رضامندی برائیوں سے بچاؤ، اچھائیوں کی راہ، آلام و مصائب سے چھٹکارا، دکھ تکلیف، رنج و کلفت سے بچاؤ کا طریقہ، امن و سکینت کا سبب اور رشد وہدایت نیز انسانی فلاح و بہبود کا منبع ہے۔

انسان کو صحیح معنوں میں مسجود ملائکہ اور اشرف المخلوقات بنانے کے لئے اللہ نے خیر و شفاء کا یہ منبع سب نبیوں کے سردار اور رسولوں کے امام حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا اور اس عظیم کتاب کے تھامنے والوں کو سب امتوں سے افضل اور پڑھنے والوں کو سب انسانوں سے بہتر قرار دیا، یہ کتاب اللہ کے حضرت انسان اور امت مسلمہ سے حددرجہ پیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حضرت انسان اور مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس عظمت و رفعت کے مرکب کی کماحقہ قدر کرے اور اپنا انگ انگ اس کے حوالے کردے، تبھی اس کی رحمت و برکات، مغفرت و ہدایت اور قرب الٰہی و انعامات ربانی کا حصول ہو سکتا ہے۔

قرآن مجید معبود حقیقی اور محبوب و مطلوب کا کلام خاص ہے، محبوب کی تقریر وتحریر کی کسی دل کھوئے کے ہاں جو وقعت ہوتی ہے اور کے ساتھ جو وارفتگی و شیفتگی کا معاملہ ہوتا ہے وہ اختیار کرنا چاہئے ، پھر یہ عظیم کتاب تو احکم الحاکمین کا کلام اور سلطان السلاطین، بادشاہوں کے بادشاہ کا فرمان ہے اس سطوت و جبروت والے شہنشاہ کا قانون ہے جس کی ہمسری نہ کسی سے ہوئی نہ ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں کو سلاطین کے دربار سے واسطہ پڑا ہے وہ تجربے سے اور جن کو نہیں پڑا وہ اندازے سے سلطانی فرمان کی ہیبت جان سکتے ہیں،کلام الٰہی محبوب و حاکم کا کلام ہے اس لئے دونوں آداب کا خیال رکھنا چاہئے، حضرت عکرمہ جب کلام پاک پڑھنے کے لئے کھولتے تو بے ہوش ہوکر گر پڑتے ، زبان پر یہی جاری ہوتا تھا: ہذا کلام ربی، ہذا کلام ربی۔یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔

یعنی اس کو ایک عام فرد کی طرح نہیں پڑھنا چاہئے، صرف بندہ بن کر اپنے آقا، مالک، محسن اور منعم کا کلام سمجھ کر پڑھے اس کے حضور حاضر ہو جس طرح کسی خاص تقریب میں آقا کے حضور حاضر ہے، اچھی طرح مسواک کرکے، وضو کرکے ایسی جگہ جہاں یکسوئی حاصل ہو، نہایت وقار اور تواضع کے ساتھ قبلہ روبیٹھئے، نہایت حضور قلب اور خشوع کے ساتھ اس طرح پڑھئے گویا حق تعالیٰ سبحانہ کو کلام پاک سنارہا ہے یا اس ذات برحق سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہے،(اگر معنی جانتا ہو تو کیا ہی خوب۔۔۔) نہایت تدبر و تفکر کے ساتھ وعدے اور رحمت و مغفرت کی آیات پر مغفرت و رحمت کا بھکاری بن جائے اور خوب دعا مانگے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں، جن آیات اللہ کی تقدیس و تحمید ہے وہاں سبحان اللہ کہے، تلاوت کے درمیان ازخود رونا آئے تو بہت خوب، ورنہ بہ تکلف رونے کی سعی کرے، دوران تلاوت کسی اور سے ہم کلام نہ ہو،دوران تلاوت اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو تلاوت بند کرکے ضرورت پوری کرے اور پھر تعوذ پڑھ کر دوبارہ تلاوت کرے، بلند آواز سے پڑھنا اولیٰ ہے لیکن کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا لوگ مجمع میں دیگر امور میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھے۔

اس کتاب کی تلاوت کے آداب جو قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(1۔ اس عظیم کتاب کو برحق، شک و شبہ سے بالاتر اور انسان کی فلاح و خیر ، رشد و ہدایت اور شفا کا باعث جاننا منزل من اللہ ، منز ل برسول اللہ سمجھنا اور باعث ثواب و اجر قرار دینا، اس میں درج احکامات پر عمل کرنااور تمام کے تمام پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی بہتری کیلئے کوشش کرنا (دنیا وآخرت کی کامیابی کا باعث قرار دے کر اس کی آیات کو لازم حیات بنالینا)۔

(2)۔ اس کتاب مقدس کو انتہائی پاک جگہ پر رکھا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے ’’مرفوعۃ مطہرۃ‘‘کے الفاظ بیان کئے ہیں یعنی بلند و پاک ،سو اس کتاب مقدس کو کسی اونچی جگہ اور پاکیزہ مقام پر رکھا جائے۔

(3)۔ اس کو ناپاک ہاتھ نہ لگنے چاہئیں، جب بھی چھوا جائے باوضو ہوکر ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ میں یہی حکم ہے، نیز رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ بھی ہے ’’لایمس القرآن الا طاہر‘‘ کہ ہرگز قرآن کو بے وضو نہ چھوا جائے، یہ وہ حکم نبوی ﷺ ہے جو حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو بھیجا گیا تھا۔(مؤطا کتاب القرآن)

(4)۔ حالت جنابت اور حیض و نفاس میں قرآن کی تلاوت بھی جائز نہیں ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تقرا الحائض والجنب شیئا من القرآن ۔ (حائضہ اور جنبی قرآن کو کچھ بھی نہ پڑھے)
نوٹ: احکام القرآن للجصاص، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ کے حوالے سے صحابہ کرام بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے، مگر چھونے کو ناروا۔ یعنی بے وضو قرآن کو چھونا نہیں چاہئے،البتہ زبانی پڑھا جاسکتا ہے، البتہ حالت جنابت ، حیض ونفاس میں زبانی بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔
اسی طرح اگر کوئی جنبی اور حائضہ کے سامنے قرآن پاک پڑھ رہا ہو اور وہ غلطی کرجائے تو اس صورت میں غلطی کی درستگی کے لئے جنبی اور حائضہ کے قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ہے، ایسے ہی عام معمولات میں کلمات خیر مثلا الحمدللہ،سبحان اللہ، ان شاء اللہ وغیرہ کہنے کی بھی اجازت ہے۔

(5)۔ جب بھی قرآن پاک پڑھے بلند آواز سے پڑھے کہ اس کا سننا بھی باعث ثواب و رحمت ہے اور سے یہ بھی مقصود ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوتو کوئی سننے والا درست کردے۔ امام بخاری نے جامع الصحیح میں باقاعدہ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کا باب باندھا ہے اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور لوچدار لہجے میں بلند آواز سے سورہ فتح پڑھ رہے تھے(کتاب التفسیر،بخاری)

(6)۔ قرآن پاک خوش الحانی اورخوش لہجہ سے پڑھنا چاہئے رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے: حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا۔ تم لوگ اپنی آوازوں سے قرآن پاک کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔

(7)۔قرآن پاک پڑھنے میں تیزی نہیں کرنی چاہئے کہ الفاظ آپس میں گھل جائیں اور سمجھ نہ آئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ کہ قرآن پڑھتے ہوئے جلد بازی میں زبان نہیں ہلانی چاہئے۔ (القیامہ)

(8)۔ایک ایک لفظ کھینچ کھینچ کر اور موتیوں کی صورت الگ پڑھنا چاہئے، جیسے ہر لفظ کا مزا لے کر پڑھا جائے، بخاری شریف میں باقاعدہ الفاظ کھینچ کر پڑھنے کا باب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔
دوسری جگہ حدیث میں ہے:
فقال کانت مدثم قراء بسم اللہ الرحمن الرحیم یمد بسم اللہ و یمد بالرحمن ویمد بالرحیم ۔ (بخاری کتاب التفسیر)

(9)۔ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، اللہ رب العزت کاارشاد ہے: ورتل القرآن ترتیلا۔(مزمل) کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے رات پوری مفصل سورتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن نہیں پڑھا بلکہ یہ تو گھاس کاٹنا ہوا۔

حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں : یقطع قراتہ یقول الحمد للہ رب العالمین ثم یقف ویقول الرحمن الرحیم ثم یقف وکان یقرا مالک یوم الدین(شمائل ترمذی) کہ رسول اللہ ﷺہر آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے، کہ الحمدللہ رب العالمین پڑھتے پھر ٹھہر جاتے، پھر الرحمن الرحیم پڑھتے پھر رک جاتے پھر مالک یوم الدین پڑھتے۔ یعنی ہر آیت پر رکنا اور وقف کرنا ہی سنت اور ترتیل ہے۔

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں ترتیل سے القارعۃ اور اذازلزلت پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں، اس سے کہ سورہ بقرہ اور آل عمران بلا ترتیل پڑھوں۔
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قرآن پڑھنے والوں سے کہے گا کہ ترتیل سے پڑھتا جا جس طرح دنیا میں پڑھتا تھا اور جنت کے درجات طے کرتا جا۔ جہاں آیات ختم ہونگی وہی تیری منزل ہے۔ (سنن اربعہ، احمد ،ابن حبان، باب فضائل القرآن)۔

(10)۔ قرآن پاک کو جتنا بھی غور سے پڑھا جائے بہتر ہے کم از کم مدت ایک ماہ میں ختم کرنا چاہئے، اگر مزید استطاعت ہوتو پندرہ دن میں، مزید استطاعت ہو تو سات دن میں اس سے کم بالکل نہیں پڑھنا چاہئے۔

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں روایت ہیں جن میں ایک ماہ میں قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ، حد سات دن کا حکم ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اقرء القرآن فی شہر قلت انی اجد قوۃ حتی قال فاقراہ فی سبع ولا تزد علیہ۔ یعنی قرآن کو تم ایک ماہ میں پڑھو (حضرت عبداللہ کہتے ہیں) میں نے کہا میں اس سے زیادہ کی استطاعت رکھتا ہوں، فرمایا زیادہ سے زیادہ سات دن میں پڑھو اور سات سے کم میں بالکل نہیں( بخاری کتاب التفسیر)

اسی وجہ سے قرآن کی سات منازل بنائی گئی ہیں، تاکہ حفاظ و قراء ایک ہفتے میں قرآن کا دور کر سکیں، صحابہ کرام و تابعین نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے پورے قرآن کی کل سات منازل ہیں۔

ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لم یفقہ من قرء القرآن فی اقل من ثلث۔ یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قرآن کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ (کتاب القرآن)۔
سوال:قرآن پاک کے تیس پاروں کی ترتیب کس صحابی نے کی۔
جواب: سورت: اسے عربی میں تاء مربوطہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جس کی جمع سُوَر آتی ہے۔ اس لفظ کو دو حیثیتوں سے بولا جاتا ہے:
۱۔ السُّؤْرَۃ: ہمزہ کے ساتھ۔ جو أَسْأَرَ سے مشتق ہے۔ جس کا معنی ہے: أَبْقٰی۔ باقی رہنے والا۔ السُّؤْرُ: باقی ماندہ۔ پانی جو پی کر برتن یا گلاس میں چھوڑ دیا جائے۔ اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے گویا کہ سؤرۃ بھی سارے قرآن کا بقیہ حصہ ہے اور اس کا ایک ٹکڑا ہے۔
۲۔ السُّوْرَۃ: بغیر ہمزہ کے۔اس کا معنی مقام ومرتبہ ہے یا لمبی و خوبصورت عمارت ہو جو ایک علامت ہو۔ اس اعتبار سے سورت نام پھر اس لئے ہے کہ یہ اپنے مرتبے اور مقام کے اعتبار سے اس سچائی کی علامت ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے۔اور ایک دلیل بھی ہے کہ یہ سارا قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا کلام ہے۔قلعے کی اونچٖی دیوار کو سُوْر کہتے ہیں۔ دو وجہ سے لفظ سورت اس لفظ کے مشابہ ہے:
۱۔ دیوار اونچی محسوس ہوتی ہے۔ سورت اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے بھی بلند وبالا محسوس ہوتی ہے۔
۲۔دیوار کی اٹھان ایک دوسرے پر رکھی گئی اینٹوں پر ہوتی ہے۔ آیات جویکے بعد دیگرے آتی ہیں سورت کی اٹھان بھی ان پر ہوتی ہے۔
علماء قرآن کے نزدیک سورت قرآن کریم کی آیات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کا ایک مطلع یعنی آغاز ہوتا ہے اور اس کا ایک مقطع یعنی اختتام ہوتا ہے۔یہ سب ایک سو چودہ سورتیںہیں جس کا آغاز الفاتحہ سے اور اختتام الناس سے ہوتا ہے۔اکثر سورتیں ایسی ہیں جن کا ایک ہی نام ہے جیسے النسائ، الاعراف، الأنعام، مریم وغیرہ۔ مگر کچھ ایسی بھی ہیں جن کے متعدد نام ہیں۔ان میں کسی کے دو نام ہیں: جیسے: محمد، اس کا ایک نام القتال بھی ہے۔ اور الجاثیۃ اس کا دوسرا نام الشریعہ بھی ہے۔ سورۃ النحل کا دوسرا نام النِّعَم ہے اس لئے کہ اس میں متعدد نعمتوں کا ذکر ہے۔
اسی طرح سورہ المائدۃ کے دو اور نام ہیں: العُقُود، اورالمُنْقِذَۃ، سورۃ غافر کے بھی اسی طرح دو اور نام ہیں: الطَّوْل اور المُؤمِن۔
بعض سورتیں ایسی ہیں جن کے تین سے زیادہ نام ہیں: مثلاً: سورۃ التوبۃ کے یہ نام بھی ہیں: بَرَاءَۃ، الفاضِحَۃ اور الحَافِرَۃ، سیدنا حذیفہ فرماتے ہیں یہ سورۃ العذاب ہے۔ ابن عمرؓ فرمایا کرتے: ہم اسے المُشَقْشِقَۃ کہا کرتے۔ اور الحارث بن یزید کہتے ہیں: اسے المُبَعْثَرَۃ ، المُسَوَّرۃ اور البَحُوث بھی کہا جاتا۔(البرہان ۱؍۵۲۱) اسی طرح سورۃ فاتحہ کے امام سیوطی ؒنے پچیس نام لکھے ہیں۔
کچھ سورتوں کا ایک ہی نام ہے: جیسے البقرۃ اور آل عمران کو الزہراوَین کہا جاتا ہے۔ اور الفلق اور الناس کو المُعَوَّذَتَیْن اور وہ پانچ سورتیں جن کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے انہیں آل حامیم یا حوامیم کہتے ہیں۔
آیت: عربی زبان میں لفظ آیت کے متعدد معانی ہیں۔معجزہ، علامت اور عبرت کے معنی میں بھی آیت کا لفظ قرآن کریم میں مستعمل ہوا ہے۔برہان اور دلیل کے معنی بھی یہ لفظ دیتا ہے۔ اسی طرح لفظ آیت حیران کن معاملے کے لئے بھی ہے جیسے: فُلانٌ آیَۃٌ فِی الْعِلْمِ وَفِی الْجَمَالِ۔ فلان شخص علم میں یا جمال میں ایک آیت ہے مراد یہ کہ اس کا علم یا جمال حیران کن ہے۔ اسی طرح لفظ آیت: جماعت کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے عرب کہا کرتے ہیں: خَرَجَ الْقَوْمُ بِآیَتِہِمْ۔ لوگ اپنی آیت یعنی جماعت سمیت نکل آئے۔
اصطلاح میں الفاظ وحروف کا وہ مجموعہ جس کا مطلع یعنی آغاز اور مقطع یعنی اختتام قرآن کریم کی کسی سورت میں درج ہو۔یعنی قرآن کریم کی سورت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس کا اپنا آغاز ہے اور اپنی انتہاء بھی۔اور ہر آیت، اگلی وپچھلی آیت سے گہرا تعلق بھی رکھتی ہے۔قرآن مجید میں کل چھ ہزار دو سو آیات ہیں ۔ علماء کا ان کی تعداد میں اختلاف وقف کا ہے یعنی محض دو آیتوں کو ایک سمجھنے یا ہر آیت کو الگ الگ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔آیات قرآنیہ کی ترتیب توقیفی ہے۔جبریل امین نے جس طرح آپ ﷺ کے قلب اطہر پر اتاریں اسی ترتیب سے آپ ﷺ نے انہیں اپنی نمازوں اور خطبوں میں پڑھا۔یہی ترتیب ملحوظ رکھنا فرض ہے۔ آیت کی ابتداء اور انتہاء کے بارے میں آگاہی بھی آپ ﷺ ہی نے دی ہے۔مثلًا سورہ فاتحہ کو آپ نے سبع مثانی فرمایا۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی تحدید بھی آپ نے فرمائی چنانچہ آپ نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ بِالْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ لَیْلَۃٍ کَفَتَاہُ۔ جس نے رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی تلاوت کی وہ اسے کافی ہوں گی۔ (متفق علیہ)اوریہ بھی فرمایا: تَکْفِیْکَ آیَۃُ الصَّیْفِ الَّتِیْ فِیْ آخِرِ سُوْرَۃِ النِّسَائِ۔ تمہیں آیت صیف ہی کا فی ہوگی جو سورہ نساء کے آخر میں ہے۔(مسند احمد۱؍۲۶) اسی طرح بعض علماء نے ہرسورہ کے شروع میں حروف مقطعات کو بھی آیت شمار کیا ہے۔ سوائے حم عسق کے اسے کوفی علماء نے دو آیتیں قرار دیا ہے اور طس، یس، الر اور المر کو بھی آیت شمار کیا ہے مگر صرف ایک حرف یعنی ق، ن، ص کو آیت شمار نہیں کیا۔ علماء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہر آیت پر وقف سنت ہے جس کی اتباع ضروری ہے۔ آیات کے اعتبار سے قرآن کریم کی عین درمیانی آیت سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۴۵ ہے جو {یأفکون}پر ختم ہوتی ہے۔ کلمات کے اعتبار سے نصف سورہ الحج کی آیت نمبر ۲۰ میں {والجلود} اور اس کے بعد باقی نصف آخر تک۔ حروف کے اعتبار سے سورہ الکہف میں لفظ {نکراً} میں نون اور اس کا کاف اگلے نصف ثانی کے لئے شروع ہوتا ہے۔یہ بھی ایک رائے ہے کہ {تستطیع}کی عین نصف ہے اور دوسری یہ بھی {ولیتلطف} میں دوسری لام بھی عین نصف ہے۔اسی طرح آیت دلیل، برہان اور معجزہ کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس میں حیران کن احکام، عقائد اور تنبیہ ودروس ہوتے ہیں۔ اور اپنی بلاغت وفصاحت میں بھی منفرد ہوتی ہے۔
سوال:قرآن کے رکوع کس صحابی نے بنائے۔
جواب:رکوع: رکوع کی علامت ’’ع‘‘ ہے جو حاشیہ پر لکھی جاتی ہے۔ رکوع کی علامت کا آغاز دور صحابہؓ کے بعد ہوا۔ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم حجاج بن یوسف نے کی۔ یہ علامت اس جگہ لگائی گئی جہاں سلسلہ کلام ختم ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ معنی کو بھی مدنظر رکھاگیا۔ لہٰذایہ تقسیم بہت حد تک صحیح ہے۔ اس علامت کا مقصد آیات کی ایسی مقدار کا تعین تھا جو نماز کی ایک رکعت میں پڑھی جاسکے۔ اسی لئے اس کو رکوع کانام دیا گیا کہ وہ مقام جہاں نماز میں قراء ت ختم کر کے رکوع کیا جائے۔اس کا تعلق نماز تراویح سے نہ تھا بلکہ بعد میں یہ بات مشایخ کے اپنے اجتہاد و فعل کی طرف منسوب کی گئی۔ فتاوٰی عالمگیریہ میں یہ تحریر ملتی ہے : مشایخ احناف نے قرآن کو پانچ سو چالیس رکوع میں تقسیم کیا ہے اور مصاحف میں اس کی علامات بنادی ہیں تاکہ تراویح میں ستائیسویں شب کو قرآن ختم ہو سکے۔ (فتاویٰ عالم گیری : فصل التراویح: ۹۴) بعدمیں بعض خوش نویسوں نے طویل رکوعوں کی مزید تقسیم کر دی اور ۵۴۰ کی بجائے ۵۵۸ رکوع کے نشان بنا دیے اور طلبہ کی آسانی کے لئے پاک وہند میں شائع ہونے والے قرآن کریم میں ہر رکوع پر مخصوص نمبر لگادئے۔ ع، رکوع کا مخفف ہے اس کے اوپر لکھے ہوئے عدد کا مطلب ہے کہ یہ اس سورہ کا رکوع نمبرہے اور درمیان میں لکھے گئے عدد سے مراد اس رکوع کی کل آیات ہیں اور سب سے نیچے لکھے ہوئے عدد سے مراد اس پارے کے رکوع کا نمبر ہے۔
سوال:قرآن میں آیات نمبر کس صحابی نے لگائے۔
جواب:سپارے: قرآن کی ایک اور تقسیم پاروں کے اعتبار سے بھی کی گئی۔ یہ تقسیم کس نے کی، نام متعین نہیں ہوسکا۔ لیکن یہ تقسیم ایسی عجیب سی ہے جس میں معنی او رسلسلہ کلام کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پارہ بالکل ادھوری بات پر ختم ہو جاتا ہے۔اس لئے یہ تقسیم پسند نہیں کی گئی۔ ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم بچوں کو قرآن پڑھانے میں آسانی کے لئے کی گئی۔ علامہ بدرالدین زرکشیؒ کا کہنا ہے: قرآن پاک کے تیس پارے جو مشہور چلے آرہے ہیں مدارس کے نسخوں میں انہی کارواج ہے۔(البرہان ۱؍۲۵۰) جبکہ ایک اور رائے کے مطابق یہ تقسیم اس لئے کی گئی کہ قرآن، مہینہ میں ختم کیا جا سکے۔ اس رائے کی بنیاد ایک حدیث پر ہے کہ نبی ﷺ نے سیدناعبداللہ بن عمرؓ وسے فرمایا:
"قرآن ایک مہینے میں ختم کیا کر و اور جب انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو فرمایا کہ اچھا تو پھر ایک ہفتہ میں قرآن ختم کیا کرو"۔
بہر حال یہ تقسیم بھی تعداد میں آیتوں کی گنتی کر کے بنائی گئی ہے جو غیر منطقی ہے اس میں پھرمناسب تبدیلی کی گئی۔ ہر پارہ کو تقریباً دوبرابر حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اور پھر چار حصوںمیں -جو ربع اور نصف سے معروف ہیں۔ مجمع الملک فہد سے شائع ہونے والے قرآن مجید میں یہی ترتیب سیپارہ بہتر کردی گئی ہے ۔ ہر آدھے پارے کو حزب قرار دیا گیا ہے۔ ابتداء سے انتہاء قرآن کریم تک ان احزاب کو مسلسل اور ترتیب وار شمار کیا گیا ہے اور پھر ہر حزب کو چار حصوں میں تقسیم کرکے آسانی کردی گئی ہے۔
سوال:قرآن پاک کاترجمہ کس صحابی نے کس کس زبان میں کیا۔
جواب:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا، کیونکہ دعوت و تبلیغ اور باہمی مکالمہ میں تاثیر اور قوت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب پیغام کی زبان آسان، نرم اور قابل فہم ہو، ہم زبانی سے اُنسیت میں اضافہ ہوتا ہے، اجنبیت دور ہو جاتی ہے اور گفتگو کامقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (م 44 ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ، تاکہ یہود سے انہی کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور انہی کی زبان میں ان کے خطوط کا جواب دیا جاسکے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :

‘‘ فتعلّمت کتا بھم مامرّت بی خمس عشرۃ الیلۃ حتی حذ قتۃ و کنت اقراء کتبھم اذا کتبوا الیہ واجیب عنہ ادا کتب ’’(2)

‘‘ پس میں نے ان کی زبان میں لکھنا سیکھ لیا۔ ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کے میں اس میں ماہر ہوگیا۔ جب یہودی کوئی خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لکھتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنا دیتا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب لکھنا ہوتا تو میں وہ لکھ دیتا’’۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک ایرانی عورت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (م 58 ھ) کی خدمت میں استغاثہ لے کر آئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھینا چاہتا ہے اس عورت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔(3)

ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھتی تھی تاکہ ان سے براہِ راست تبادلہ خیال کر کے اس کے مسائل کو حل کیا جاسکے ۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے بعض گااجزا کا دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کیا تھا تاکہ عربی زبان سے ناواقف لوگ اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سےمحروم نہ رہ جائیں ۔ چنانچہ علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ ( م 490 ھ) لکھتے ہیں :

‘‘ روی ان الفرس کتبو االی سلمان رضی اللہ عنہ ان یکتب لھم الفاتحۃ بالفار سیۃ فکانو ا یقرء ون ذالک فی الصلوۃ حتیٰ لانت السنتھم للعربیۃ ’’ (4)

‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ بعض نو مسلم ایرانیوں نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ ان کے لیے سورۃ الفاتحہ کو فارسی میں نقل کردیا جائے ، چنانچہ وہ لوگ ( اسی ترجمہ) کو نماز میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ عربی سیکھ گئے ۔’’

اسی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک بڑے فقیہ نے اپنی کتاب ‘‘ النھا یۃ حاشیۃ الھدایۃ ’’ میں مزید تفصیل درج کی ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ( م 33 ھ) نے رسول اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے یہ کام انجام دیا اور ان کے ترجمے کا ایک جز بھی نقل کیا ہے، ‘‘ بنام خداوند بخشا یندہ مہربان’’ یہ بسم اللہ کا ترجمہ ہے۔(5)

شاہان عالم کی طرف بھیجے جانے والے سفراء کا معجزانہ طور پر انہیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانابھی دعوت و تبلیغ او رمکالمے میں زبان کی یکسانیت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ (6)

اس کے علاوہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قوموں کی طرف داعی او رمبلغ بنا کر روانہ فرمایا اس میں بھی یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتِ عملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ وہ مبلغ اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں بصورتِ دیگر وہ اس قوم کی زبان، رسم و رواج اور کلچر سے آگاہ ہوں۔ بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بین المذاہب مکالمے کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی باقائدہ تربیت فرمائی ۔
سوال:قرآن کی تفسیرکس صحابہ نے کی۔
جواب:علمائے کرام کہتے ہیں کہ :تفسیر کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے کیونکہ اگر ایک مقام پر کسی چیزکا اجمالاذکر ہوا ہے تو دوسرے مقام پر تفصیل سے ذکر ہوگاـ پھراگر ہمیں قرآن کی کسی آیت سے تفسیر نہ ملے توہم اسے سنت سے تلاش کریں گئے کیونکہ سنت قرآن کی شارح اور اس کی وضاحت کرنے والی ہے ـ اور اگر ہمیں قرآن اور سنت دونوں میں تفسیر نہ ملے توہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کی طرف رجوع کریں گئے ، وہ اسے دوسروں سے زیادہ جاننے والے تھے کیونکہ نزول کے وقت انھیں ہی قرائن و احوال کا پورا پورا علم تھا اور اس لیے بھی کہ ان کا فہم پختہ ، علم صحیح اور عمل صالح تھا ، خاص کر جلیل القدر صحابہ کرام کا جیسے چاروں خلفائے راشدین اور ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم ـ پھر اگر ان کے کلام میں بھی تفسیر نہ ملے تو ہم تابعین رحمہ اللہ عنہم کے اقوال کی طرف رجوع کریں گئے جنھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیا ، نیز عربی لغت کی طرف بھی جس میں قران نازل ہواـ

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تفسیر چار پہلوؤں پر ہو سکتی ہے ،
ایک پہلو یہ ہے کہ وہ کلام ، عربوں میں معروف ہوـ
دوسرا یہ کہ تفسیرایسی ہو کہ کوئی شخص اس کی لاعلمی کا عذر نہ کس سکے ،
تیسرا یہ کہ علماء جانتے ہوں
اور چوتھا پہلو یہ ہے کہ جس کی تفسیرکی اللہ تعالٰی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر کوئی اسے جاننے کا دعوٰی کرے تو وہ جھوٹا ہے
تفسیرالطبری :54/1
مقدمہ تفسیرابن کثیر:1/4،3

محض رائے سے تفسیر کرنا (تفسیربالرائے ) بلکل حرام ہے
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
سورة الأعراف (33)

"کہ دیجیے :بے شک میرے رب نے بےحیائی کی باتوں کو حرام ٹہرایا ہے ، چاہے وہ ظاہر ہوں یا چھپی ہوئی اور گناہ کو اور ناحق ظلم کو بھی اور یہ (بھی حرام ہے ) کہ تم اللہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ (بھی حرام ہے )کہ تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہو جو تم نہیں جانتے "

اور حدیث میں ہے :
"‏ مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‏"‏
"جس نے قرآن میں اپنی رائے سے بات کی یا ایسی بات کی جسے وہ جانتا نہیں تھا تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے "
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے ـ
جامع الترمزی ، تفسیر القران ، باب مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ ‏‏2951
حوالہ جات:
کیا قرآن میں زبرزیر بعد میں داخل کیا گیاہے؟ [دستاویزات] - URDU MAJLIS FORUM
قرآن کریم اور تلاوت کے آداب [دستاویزات] - URDU MAJLIS FORUM
جمع قرآن اور اس کی تدوین - صفحہ 3 - URDU MAJLIS FORUM
 
جزاک اللہ خیرا فی الدنیا ولآخرۃ
اللہ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے۔آمین

حضرت بلال رضی اللہ

بلال بن رباح

ان اولین لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شروع میں اسلام قبول کیا اور جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔جن پر کفار مکہ نے مظالم ڈھائے تا کہ تنگ آکر اسلام سے پھر جائیں لیکن ان کی زبان صرف احد احد کرنا جانتی تھی۔ آپ مکہ میں پیدا ہوئے جبکہ بنیادی طور پر آپکا تعلق ابی سنیا سے تھا، جسے آجکل  ایتھوپیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے تین برس بعد پیدا ہوئے اور آپکا پورا نام بلال بن ابی رباح ہے۔ان کی والدہ کا نام روایات میں حمامہ آیا ہے، صحابہ اور روایات کے مطابق ان کا رنگ  سیاہ تھا، قد اونچا اور کسی قدر دبلے پتلے تھے لیکن جب صحابہ ان کی خصوصیات بتاتے تو کہتے تھے کہ وہ صادق القلب تھے، ایک  ایسے انسان جنہوں نے سب کچھ محنت اور جدو جہد سے حاصل کیا اور یہ سب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کا نتیجہ تھا۔ آپ ﷺ کی جانب سے حضرت بلال کو دو لقب دئے گئے یا دو طرح کی خدمات تھیں جو خود آپ ﷺ نے حضرت بلال کو سونپیں، ایک الخازن، یعنی حضرت بلال، آپ ﷺ کے ذاتی خزانچی تھے، اور دوسرا لقب جو آپکا ہے وہ مؤذن رسول ﷺ ہے جو کہ سب بخوبی جانتے ہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال کو تمام مؤذنوں کا سردار کہا ہے تو دنیا میں قیامت تک جہاں بھی اذان دی جائے گی حضرت بلال ان تمام مؤذنوں کے سردار ہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ کا تعلق بنی جہر سے تھا، ان کی والدہ ایک غلام تھیں جن کو امیہ بن خلف نے خریدا تھا۔ امیہ بن خلف اسلام کا سخت دشمن تھا اور حضرت بلال پر طرح طرح کے مظالم ڈھاتا تھا تا کہ وہ اسلام سے پھر جائیں، عرب کی تپتی دوپہر میں ان کو گرم، ریت پر لٹایا جاتا تھا اور ان کے سینے پر ایک وزنی چٹان رکھی جاتی تھی اور ان سے کہا جاتا تھا کہ اسلام چھوڑ دو لیکن ان کی زبان سے صرف احد احد نکلتا تھا۔ یہی امیہ بن خلف غزوہ بدر میں قیدی بن کر آیا تھا اور حضرت بلال کے ہاتھوں قتل ہوا، قتل کے وقت حضرت بلال کی زبان پر احد احد تھا۔  رسول اللہ ﷺ ان تمام مظالم سے آگاہ تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو فرمایا کیا کوئی ایسا نہیں جو بلال کو خرید کر آزاد کر دے؟ حضرت ابو بکر امیہ بن خلف کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ بلال کو کتنے میں بیچو گے؟ اس نے سونے کےدس سکوں کا مطالبہ کیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ گھر آئے اور سونے کے دس سکے لے کر امیہ کو دئیے جس پر امیہ ہنس پڑا اور کہنے لگا، خدا کی قسم اگر آج تم ضد کرتے تو میں بلال کو سونے کے ایک سکے کے بدلے فروخت کر دیتا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ نے فرمایا، اگر آج تم ضد کرتے اور مجھ سے بلال کے بدلے سونے کے سو سکے بھی مانگتے تو میں وہ دیکر بھی بلال کو آزاد کر دیتا۔ حضرت بلال کو آزاد کرنے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ کہتے تھے بلال میرے آقا ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی ہر مہم ہر غزوہ میں حضرت بلال آپﷺ کے ساتھ رہے، آپ رضی اللہ ان سات صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ حضرت بلال ہمیشہ بات کرتے ہوئے یہی کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے وہ فرمایا، ان سے کوئی اور بات کی جاتی تو کچھ دیر وہ بات کرتے مگر پھر یہیں آجاتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے وہ فرمایا۔ آپﷺ فرماتے تھے، بلال کوئی بھی بات مجھ سے منسوب کر کے کہیں تو اس کے بارے میں کسی شک میں مت پڑنا۔حضرت بلال ان اصحاب میں سے ہیں جن کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی اور یہ ایک وجہ ہی کافی تھی کہ لوگ ان کی بے پناہ عزت کرتے، ان کی تعریف کرتے اور جب ایسا ہوتا، حضرت بلال اپنے سر کو جھکا لیتے، جاننے والے جانتے تھے کہ ان کی تعریف کی جارہی ہے لیکن سر جھکا کر حضرت بلال کی آنکھوں سے اشک جاری ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے میں تمہیں بتاؤں میں کیا ہوں؟ میں ایک حبشی ہوں اور میں ایک غلام تھا  اور ایک غلام ہوں، اللہ کا غلام۔
ایک بار ایک قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول میری بیٹی کی شادی کسی سے کر دیں، آپ ﷺ نے فرمایا، بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ لوگ پھر آئے پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ میری بیٹی کی شادی کسی سے کر دیں، آپ ﷺ نے فرمایا، بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ لوگ تیسری بار پھر آئے اور پھر یہی کہا، آپ ﷺ نے پھر جواب دیا، بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جو کہ جنتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جنت، حضرت بلال کا انتظار کرتی ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم جنت کا انتظار کرتے ہیں جبکہ جنت خود حضرت بلال کا انتظار کرتی ہے۔ایک بار فجر کی نماز کے بعد آپ ﷺ نے حضرت بلال سے پوچھا کہ تم ایسا کیا کرتے ہو کہ کل رات جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی آواز سنی۔حضرت بلال نے جواب دیا، یا رسول اللہ ﷺ جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے میں دوبارہ وضو کر کے دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں۔
کون تھا ایسا جو نہ چاہتا ہو کہ موذن رسول ﷺ کا منسب اسے نصیب ہو؟ صحابہ اس بات پر جان تک دے سکتے تھے لیکن یہ مقام حضرت بلال کے حصے میں آیا تھا نہ صرف یہ بلکہ فتح مکہ کو یاد کریں جب بڑے بڑے مرتبے والے صحابہ موجود تھے اور ایک طرف خانہ کعبہ تھا جو مسلمان  اور مشرکینِ مکہ دونوں کے لئے سب سے محترم تھا لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ کی چھت پر جا کر اذان دینے کے لئے بُلایا تو کسی اور کو نہیں بلکہ حضرت بلال کو کہا ورنہ وہاں وہ دس صحابہ موجود تھے جن کو دنیا میں جنت کی بشارت مل گئی تھی، وہ اصحاب موجود تھے جو بدر میں آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، وہ چار خلفائے راشدین موجود تھے جن میں سے دو آپ ﷺ کے داماد اور دو کی بیٹیاں آپﷺ کی ازواج تھیں لیکن یہ مقام اللہ نے حضرت بلال کے لئے رکھا تھا۔
ایک صحابی نے ایک بار حضرت بلال کو ایک حبشی عورت کا بیٹا کہہ کر بُلایا جو حضرت بلال رضی اللہ کو گراں گزرا، آپ، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ساری بات بتائی، آپﷺ نے ان صحابی سے فرمایا کہ تمہارے اندر اب تک زمانہ جاہلیت کی باتیں موجود ہیں؟  آپ ﷺ نے فرمایا، میں جتنا ایک سفید عورت کا بیٹا ہوں اتنا ہی ایک کالی عورت کا بیٹا بھی ہوں (حضرت حلیمہ سعدیہ)۔اذان دیتے وقت جب اشہد ان محمد الرسول اللہ پر آتے تو آپﷺ گھر سے نکل کر مسجد کی طرف آتے تھے۔ پھر جب علالت کا وقت آیا اور آپ ﷺ سے امامت کے لئے آیا نہ جا سکا تو حضرت بلال خود آپﷺ کو بلانے جاتے، کبھی آپ ﷺ خود آتے کبھی کسی نے سہارا دیا ہوتا۔ یہ دیکھ کر حضرت بلال فرماتے کہ کیا ہی دکھ اور غم کے دن ہیں، اگر یہ دن ہی دیکھنا تھا تو میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا،  یا اے کاش میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مر گیا ہوتا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ اذان دیتے ہوئے غم سے بے ہوش ہو گئے۔ آپﷺ کی وفات کے وقت جب  کہ آپﷺ کا جسمِ مبارک ابھی وہیں تھا حضرت بلال نے اذان دینے کی کوشش کی لیکن جب اشد ان محمدالرسول اللہ پر پہنچے اور آپﷺ گھر سے نہ نکلے تو یہ منظر اس قدر غمناک تھا کہ اذان دیتے ہوئے حضرت بلال کو ہچکی لگ گئی، وہ اتنا روئے کہ باقی تمام صحابہ کو بھی رُلا دیا۔ اگلے تین روز تک مسلسل آپ نے اذان دینے کی کوشش کی لیکن اشہد ان محمد الرسول اللہ پر پہنچ کر ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے تھے، اس لئے آپ رضی اللہ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلال نے مدینہ چھوڑ دیا تھا، وہ ان گلیوں کو رسول اللہ ﷺ کے بغیر دیکھ ہی نہیں سکتے تھے جہاں انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ زندگی گزاری تھی۔ حضرت بلال، حضرت ابو بکر رضی اللہ کے پاس گئے اور ان سے اجازت مانگی کہ وہ جہاد پر جانا چاہتے ہیں۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ مت جاؤ مجھے تمہاری ضرورت ہے لیکن حضرت بلال نے جواب دیا کہ اے ابو بکر اگر آپ نے مجھے اپنے لئے خرید کر آزاد کیا تھا تو میں رک جاتا ہوں اگر اللہ کے لئے آزاد کیا تھا تو مجھے جانے دیجئے۔ یہاں سے آپ جہاد کے لئے روانہ ہو گئے۔ پھر ایک رات ایک خواب دیکھا۔ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، فرما رہے تھے کہ بلال! تم نے میرے پاس آنا چھوڑ دیا؟ حضرت بلال رضی اللہ نے اسی وقت مدینہ کا ارادہ کیا اور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ نے دیکھا تو اذان دینے کی فرمائش کی، حضرت بلال نے ٹالنا چاہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں کی فرمائش تھی۔ اذان شروع کی، مدینہ میں کہرام مچ گیا، کچھ نے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگئے، لوگ اتنا روئے کہ داڑھیاں تر ہو گئیں، کہتے ہیں مدینہ کی فضا اس سے زیادہ سو گوار پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔یہ واقعہ آپ ﷺ کی وفات کے کافی بعد پیش آیا تھا، حضرت بلال نے دوبارہ کوشش کی کہ مدینہ میں ہی رہیں لیکن وہ مدینہ کو آپﷺ کے بغیر دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے اس لئے واپس چلے آئے۔
پھر بیت المقدس فتح ہوا اور وہاں کے لوگوں نے اس شرط پر شہر کی کنجیاں دینے کی ہامی بھری کہ خود حضرت عمر آئیں اور صلح کی شرائط طے کریں۔ یہاں یہ تمام بڑے صحابہ موجود تھے جب سب نے حضرت بلال سے دوبارہ اذان کی فرمائش کی، حضرت بلال بمشکل مانے اور اذان دی، رسول اللہ ﷺ کے وقت کی یاد تازہ ہو گئی، وہ خود بھی روئے اور تمام موجود صحابہ  بھی روئے۔ یہ دو ہی بار تھا جب رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور کے کہنے پر حضرت بلال نے اذان دی، اس کے بعد حضرت بلال کی اذان نہ تو فرش والوں نے سنی نہ ہی عرش والوں نے۔یہ فخر صرف بلال بن ابی رباح کو حاصل ہے کہ جنہوں نے خانہ کعبہ میں، مسجدِ نبویﷺ میں اور مسجد اقصیٰ میں، تینوں جگہ اذان دی، تینوں جگہ توحید کا اعلان کیا۔
حضرت بلال کی وفات کے وقت جب ان کی بیوی نے یہ کہا کہ کیا ہی غم کا وقت ہے تو حضرت بلال نے فرمایا نہیں یہ بہت خوشی کا وقت ہے، کل میں رسول اللہ ﷺ سے ملوں گا، اپنے ساتھیوں سے ملوں گا۔ حضرت بلال رضی اللہ دمشق میں، 20 ہجری میں اس دنیا کوچھوڑ کر اپنے محبوب سے ملنے چلے گئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی نہ ہی ان کی کوئی جائداد تھی، اصل میں فقر کے باعث وہ اپنے پیچھے کچھ نہ چھوڑ کر گئے سوائے اذان کے جو قیامت تک تمام مسلمانوں کو ان کی یاد دلاتی رہے گی۔ رضی اللہ عنہ۔
واللہ اعلم بالثواب۔

صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ

اللہ کے اس بندے کی شخصیت پڑھیں تو لگتا ہے کوئی بدری صحابی تھا جسے اللہ نے بعد میں اپنے ایک اہم کام کے لئے بچا کر رکھ دیا تھا۔حضرت صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ تکریت کے ایک قلعہ میں پیدا ہوئے تھے، گو کہ ان کی تربیت مکمل فوجی ماحول میں ہوئی لیکن ان کی ہمیشہ کی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ ایک عالم بنیں اور ہوتی بھی کیوں نہ کہ اس زمانے کے سب سے بہترین انسان نورالدین زنگی نے ان کی تربیت خود کی تھی۔آپ نے کم عمری ہی میں قران حفظ کر لیا تھا اور آپ خود فقہ کے شافعی تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب عیسائی ایک بار پھر سے زور پکڑتے جا رہے تھے اور کوئی دن ایسا نہ تھا جب آپ ان کی فتوحات کی خبریں نہ سنتے ہوں۔ ان کی والدہ کا بیان ہے کہ جب آپ ان کے پیٹ میں تھے جو انہوں نے خواب دیکھا کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ان کے اندر ہے۔
پھر دمشق نے وہ حالات دیکھے کہ جرائم عام ہوتے جاتے تھے جس کا حل نور الدین نے یہ نکالا کہ بہت کم عمری میں ہی صلاح الدین ایوبی کو دمشق کی پولیس کا افسر مقرر کر دیا اور وہ جانتے تھے کہ یہی ایک شخص امن واپس لا سکتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا ایک سالار کو تیار ہوتے دیکھ رہی تھی کیونکہ عالمِ اسلام کو بہت بڑے بڑے فیصلے مقصود تھے جو صلاح الدین کے ہاتھوں ہونے تھے۔ خیر، دمشق میں حالات بہتر ہوتے گئے اور جرائم کا خاتمہ ہو گیا لیکن یہ خبریں ملیں کہ مصر، عیسائیوں کے ہاتھوں فتح ہو گیا ہے۔ وہاں کے خلیفہ نے اپنی بیوی کے بال کاٹ کر نور الدین کو بھیجے جس کا مطلب تھا کہ ہم اپنی خواتین کی حفاظت اب نہیں کر سکتے، ہماری مدد کی جائے لیکن وہ چونکہ فاطمی تھے اس لئے نورالدین ان کی مدد نہ کرنا چاہتے تھے۔ صلاح الدین ایوبی کو کہا گیا لیکن ان کے اپنے الفاظ ہیں کہ میں اس وقت جانا نہیں چاہتا تھا مجھے ڈر تھا کہ میں مار دیا جاؤں گا۔لیکن وہ وہاں گئے اور مصر کو عیسائیوں سے آزاد کروایا، خلیفہ جو پہلے تھا وہی رہا لیکن خلیفہ کے ساتھ رہنے والے شخص جس کا نام انگریزی میں شرکو ہے کا انتقال ہوا تو لوگوں کی نظریں صلاح الدین پر لگی تھیں۔ پھر صرف ۳۲ برس کی عمرمیں مصر کی سب سے طاقتور شخصیت حضرت صلاح الدین ایوبی تھے۔
نورالدین زنگی کا انتقال ہوا تو شام میں عیسایئت ایک بار پھر سے زور پکڑنے لگی، مسلمان خود عیسائیوں کے حامی بننے لگے تھے،یہ وہ وقت تھا جب صلاح الدین ایوبی نے اسلام کے لئے اپنی مہمات کا آغاز کیا۔ تاریخ میں بہت سے مسلم فاتحین گزرے ہیں لیکن کسی نے بھی مسلمانوں سے لڑنے میں اتنا وقت نہیں لگایا۔ صلاح الدین ایوبی نے دس برس تک مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لئے ان کے ساتھ جنگیں کیں۔ان سب کی حالت ٹھیک کرنے میں دس برس سے زیادہ لگے جو آپس میں اتفاق نہیں رکھتے تھے جو عیسائیوں کے ساتھ تھے کیونکہ اسلام کو ابھرنے کے لئے اتفاق کی بہت ضرورت تھی۔
ریجنالڈ ڈی شیٹلون نے ایک لشکر اکٹھا کیا اور مکہ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی۔ اس کے الفاظ تھے کہ جب میں مکہ پہنچوں گا تو کعبہ کو مسمار کے زمین برابر کر دوں گا اور اس کے بعد مدینہ جاؤں گا اور وہاں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر کے نعوذباللہ وہاں سے اس اونٹ کے چرواہے کو نکالوں گا اور اس کا جسم تمام مسلمانوں کو دکھاؤں گا۔ بھلا ایسا ہو سکتا تھا کہ کوئی بری نظر سے بھی ان مقامات کی طرف دیکھے؟صلاح الدین ایوبی نے اپنی تلوار ہوا میں بلند کی اور کہا کہ اللہ کی قسم میں اس شخص کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گا۔صلاح الدین نے حسام الدین کی سالاری میں ایک لشکر بھیجا جس نے سمندر کے راستے جا کر ریجنالڈ کو شکست دی، ریجنالڈ جان بچانے میں کامیاب رہا جبکہ اس کے ساتھ موجود لوگوں کو قید کر کے مدینہ لایا گیا اور مدینہ میں ان تمام کو قتل کر دیا گیا۔
چار برس بعد اسی ریجنالڈ نے مصر سے شام جانے والے ایک مسلمان قافلے پر حملہ کر کے عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئے معاہدے کو توڑ دیا۔ صلاح الدین نے ایک بار پھر سے اس کو قتل کھانے کی قسم کھائی اور جس کا نتیجہ مشہور حطین کی جنگ کی صورت میں نکلا۔ اس بار لشکر کے سپہ سالار خود صلاح الدین ایوبی تھے، جبکہ عیسائیوں کی جانب سے بھی ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لئے نکلا۔ صلاح الدین ایوبی کو مشورے دئیے گئے کہ ہم ان کے شہروں پر حملے جاری رکھتے ہیں لیکن انکا جواب تھا کہ نہیں ہم اس لشکر کا مقابلہ کریں گے صلاح الدین نے یہاں فرمایا کہ اے مسلمانوں! مجھے خوش کرنے کے لئے مت لڑنا، اللہ کو خوش کرنے کے لئے لڑنا۔عیسائیوں کا لشکر مسلمانوں سے بڑا تھا اور وہ مکمل طور پر خود کو محفوظ کئے ہوئے تھے۔ صلاح الدین نے یہاں اپنی جنگی ذہانت کا استعمال کیا اور عیسائیوں کو ہی تاثر دینے کے لئے کہ مسلمان سمندر کے سامنے بے بس ہوجائیں گے انہوں نے سمندر کے سامنے صف بندی کی، جو صلاح الدین نے چاہا تھا وہی عیسائی سمجھے اور شام تک مسلمان تیر اندازوں کے مسلسل حملوں کے سامنے بے بس ہو گئے۔عیسائی سوچتے تھے کہ رات ان کے لئے کچھ اچھا لائے گی اور کچھ بہتری پیدا ہوگی لیکن صلاح الدین کی فوج نے اس طرح سے ان کو جکڑا کہ ایک انسان تو درکنار ایک چیونٹی بھی بنا دکھے نہیں جا سکتی تھی۔
اگلی صبح، ہوا، عیسائیوں کی سمت میں چل رہی تھی، یہ موقع تھا جب صلاح الدین ایوبی نے وہاں موجود جھاڑیوں کو آگ لگا دی، پچھلی رات کی پسپائی اور اس کے بعد برداشت سے باہر یہ دھواں، عیسائی ہمت ہار رہے تھے جب صلاح الدین نے آخری وار کیا اور وہ یہ تھا کہ صلیبی لشکر میں موجود صلیب پر قبضہ کیا جائے۔ یہ وہ صلیب تھی  جس کے بارے میں مشہور تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کو اسی پر سولی دی گئی تھی۔ اور عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ جس لشکر میں یہ صلیب موجود ہوگی اس کو شکست نہیں ہوگی اور گزشتہ بیس معرکے وہ اسکی برکت کی وجہ سے ہی جیتے تھے۔صلاح الدین ایوبی نے ایک پورا دستہ اس پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا جس نے کامیابی سے اس صلیب پر قبضہ کر لیا اور عیسائی لشکر میں 150 کے علاوہ باقی تمام لوگوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔اسلامی لشکر نے اب ان باقی 150 پر حملہ کیا، صلاح الدین نے یہ سب دیکھ رہے تھے، ان کے بھائی نے کہا، الحمدللہ، ہم جیت گئے لیکن صلاح الدین نے جواب دیا، ابھی نہیں۔ایک بار پھر سے مسلمانوں نے حملہ کیا اور عیسائی پسپا ہوکر پیچھے ہٹے، صلاح الدین کے بھائی نے پھر کہا، ہم جیت گئے۔ صلاح الدین نے جواب دیا، نہیں، ابھی نہیں، جب قلب میں موجود بادشاہ کا یہ خیمہ گر جائے گا تب ہمیں فتح ہوگی اور جس وقت صلاح الدین کی زبان سے یہ الفاظ نکل رہے تھے اسی وقت وہ خیمہ گرا اور صلاح الدین کا سر اسی وقت سجدے میں گر گیا۔علماء اور تاریخ داان کہتے ہیں، یرموک میں اسلامی لشکر کی فتح کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کی طرف دیکھا جائے تو حطین کی جنگ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی فتح تھی۔جنگ کے بعد صلاح الدین کے لئے ایک خیمہ نصب کیا گیا وہاں عیسائی بادشاہ اور ریجنالڈ کو پیش کیا گیا، بادشاہ پیاسا تھا اس لئے صلاح الدین نے پینے کے لئے اس کو پانی دیا، بادشاہ نے پی کر پانی ریجنالڈ کو دے دیا تو صلاح الدین نے فرمایا کہ یہ پانی تم نے اس کو دیا میں نے نہیں کیونکہ کسی کو پانی دینے کا مطلب ہے اس کو پناہ میں لینا۔اس کے بعد صلاح الدین، ریجنالڈ سے مخاطب ہوئے اور اس کو یاد دلوایا کہ اس نے کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں، اس کو یاد کروایا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ نے بارے میں کیا بکواس کی تھی، ریجنالڈ نے جواب دیا کہ بادشاہ یہی سب کرتے ہیں۔ صلاح الدین نے ریجنالڈ کو اسلام کی پیشکش کی جس کو اس نے ٹھکرا دیا۔صلاح الدین نے پوچھا، جانتے ہو میں کون ہوں؟ اور خود ہی جواب دیا، میں رسول اللہ ﷺ کا ایلچی ہوں۔انہوں نے جو قسم کھائی تھی وہ پوری کی اور ریجنالڈ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔
یہاں سے لشکر نے پیشقدمی کی اور ایکر، توران، ارسوف، بیروت، نابلس، حیفہ، اور آس پاس کے تمام علاقے فتح کر کےعیسائیوں کے کمک کے تمام راستے بند کر دئیے۔ یہاں سے صلاح الدین نے اپنی زندگی کے اصل مقصد کی طرف پیشقدمی کی جو کہ تمام مقدس مقامات کو فتح کر کے آزاد کرنا تھا۔ان سے پوچھا گیا کہ آپ مصر، شام، لبنان کے سلطان ہیں اور آپ کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں کیسے مسکراؤں جبکہ بیت المقدس عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے۔نجومیوں نے بتایا کہ اگر آپ نے بیت المقدس کی طرف پیشقدمی کی تو آپکی ایک آنکھ ضائع ہو سکتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے جواب دیا:
“تم میری ایک آنکھ کی بات کرتے ہو، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بیت المقدس کی طرف پیشقدمی کروں گا پھر بے شک مجھے بیت المقدس میں اندھا ہو کر داخل ہونا پڑے۔”6 روز تک یروشلم پر حملے کئے، 26 رجب کو بالیان نے صلاح الدین نے ملاقات کی اور حفاظت سے وہاں سے نکل جانے کی شرائط کے بارے میں بات کرنا چاہی، صلاح الدین نے جواب دیا کہ میں نے پہلے شرائط کی بات کی تھی، تم نے اس سے انکار کیا، اب کوئی شرائط نہیں، یہ شہر اب ہمارا ہے۔ بالیان نے جواب دیا کہ اگر تمہیں منظور نہیں تو شہر میں موجود پانچ ہزار مسلمانوں کو قتل کر کے ہم مسجد تباہ کر دیں گے۔صلاح الدین ایک فاتح تھے، چاہتے تو تو کہہ سکتے تھے کہ جاؤ کر لوں جو ہو سکتا ہے شہر تو میں فتح کر ہی چکا ہوں لیکن انہوں نے بالیان کی شرائط مان لیں۔یہ اس عظیم شخصیت کی عظمت تھی کہ جس نے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی کیونکہ مسلمان جب مکہ میں داخل ہوئے تو وہ گلیاں ان کے سامنے تھیں جہاں بلال رضی اللہ کو ایسے گھسیٹا گیا تھا کہ ان کی کھال ان کے جسم سے الگ ہو جاتی تھی  جہاں دو معصوم لڑکیوں کو اس لئے قتل کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے کلمہ پڑھا تھا۔ کیونکہ وہاں جب مکہ فتح ہوا تو ایک صحابی نے کہا تھا “الیومُ یومُ ملحمہ” یعنی آج بدلے کا دن ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا “الیومُ یومُ المرحمہ” یعنی آج رحم کرنے کا دن ہے۔ صلاح الدین کے ساتھ موجود مسلمان بھی جانتے تھے کہ 88 برس پہلے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا، شیر خوار بچوں کو ان کی ماؤں سے چھین کر دیواروں پر پٹخا گیا تھا، کیسے ان خواتین کی عزت و ناموس سے 88 برس پہلے کھیلا گیا تھا، کیسے مسجد کے عین اندر ستر ہزار مسلمانوں کا خون ایسے بہایا گیا تھا کہ قاتلوں کے گھٹنوں تک خون پہنچ گیا تھا، صلاح الدین چاہتے تو وہی سب دہرا سکتے تھے لیکن ہروشلم نے 88 برس تک ایک ایسے انسان کا انتظار کیا تھا جو آکر اس شہر کو ظلم سے نجات دلوا کر دوبارہ وہاں اللہ اکبر کی گونج پیدا کرے گا۔ 27 رجب کو صلاح الدین نے یروشلم میں قدم رکھا اور 27 رجب کو ہی آپ ﷺ نے معراج کے واقعے کے وقت یروشلم میں قدم رکھا تھا۔
عیسائیوں نے یہ سنا تو غم کے مارے ان کا ایک پوپ صدمے سے مر گیا، ایک پوپ نے ایک خط تمام لوگوں کو لکھا کہ تمام قابل لوگوں کو جنگ کے لئے بھیجا جائے، جرمنی سے فریڈرک نے دس لاکھ کا لشکر بھیجا لیکن اللہ نے اس کو راستے ہی میں غرق کر دیا اور وہ کبھی کہیں پہنچ نہیں سکا۔انگلستان سے رچرڈ، اور فرانس سے فلپ نے مجموعی طور پر چھ لاکھ کا لشکر اکٹھا کیا۔صلاح الدین نے تمام مسلمان حکمرانوں کو خط لکھے لیکن کسی نے بھی مدد نہیں کی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت تین مسلم خلفاء موجود تھے لیکن انہوں نے صلاح الدین کی مدد سے انکار کر دیا۔ صلاح الدین عالمِ اسلام کی اس حالت پر روتے تھے اور آج تاریخ کو یاد نہیں کہ وہ تین خلفاء کون تھے۔ کسی کو ان کے نام یاد نہیں۔دو برس تک عیسائیوں کا یہ گھیراؤ قائم رہا وہ اس طرح کیموفلاج تھے کہ صلاح الدین ان پر حملہ کرنے میں ناکام رہتے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب صلاح الدین کو لوگوں نے ایسے دیکھا جیسے وہ ایک ماں ہوں اور ان کا بچہ گُم ہو گیا ہو۔ جس وقت تین خلفاء اپنے اپنے محلوں میں سکون کی نیند سوئے ہوتے تھے، صلاح الدین ایوبی اپنے لشکر کی صفوں میں چکر لگا رہے ہوتے تھے، جب یہ خلفاء مزیدار پکوانوں سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہوتے تھے، اسلام کا یہ رجلِ عظیم ایک عام سے خیمے میں وہی کھانا کھا رہا ہوتا تھا جو ایک عام فوجی کو ملتا تھا۔دو سال تک محاصرے بعد مسلمانوں نے عیسائیوں سے معاہدہ کر لیا اور اس کے بعد ایکر میں موجود ہر مرد، عورت اور بچے کو عیسائیوں نے قتل کر دیا۔ایک بار جب رچرڈ، صلاح الدین ایوبی کے ساتھ بیٹھا تھا تو اس کا بیان ہے کہ صلاح الدین نے دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد رونا شروع کر دیا، انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ میرے پاس جو کچھ تھا میں نے تیرے راستے میں خرچ کر دیا، اب یہی باقی ہے کہ میں بھی تیرے پاس آجاؤں۔ اس کے بعد وہ اتنا روئے کہ ان کی داڑھی تر ہو گئی، اس کے بعد جہاں وہ نماز پڑھ رہے تھے وہ جگہ بھی تر ہو گئی۔اس سے اگلی صبح یہ خبر ملی کہ عیسائیوں نے محاصرہ اٹھا لیا ہے اور رچرڈ کے الفاظ یہ تھے کہ جب تک صلاح الدین جیسا انسان یروشلم کی حفاظت کر رہا ہے کوئی اس کو فتح نہیں کر سکتا۔
معاہدے کے بعد صلاح الدین دمشق واپس آگئے اور پھر ایک دن جب ٹھنڈ زیادہ تھی اور آپ حاجیوں کے کیمپ سے واپس آئے تھے تو آپکی طبیعت خراب ہو گئی۔دن بدن طبیعت بگڑتی گئی اور صلاح الدین کمزور ہونا شروع گئے لیکن روایات میں ہے کہ جتنا وہ کمزور ہوئے اتنا زیادہ اللہ پر انکا یقین پختہ ہوتا گیا۔نویں دن، صلاح الدین ہر غشی طاری ہو گئی۔ اس کے بعد تین روز تک شیخ جعفر نے ان کے سرہانے قرآن کی تلاوت کی۔ ایک دن جب شیخ جعفر اس آیت پر پہنچے جس کا مطلب تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو صلاح الدین نے کلمہ شہادت پڑھا اور اسلام کا یہ عظیم مرد پورے دمشق کو روتا بلکتا چھوڑ گیا۔دمشق میں یہ حالت تھی کہ جیسے کوئی نبی وصال پا گیا ہو۔ خلفائے راشدین کے جانے بعد عالمِ اسلام کے لئے یہ سب سے بڑا نقصان تھا۔ لوگ محبت کرتے تھے صلاح الدین ایوبی سے۔ ان کا انتقال فجر کے وقت ہوا، ظہر کے وقت ان کے جسم کو باہر لایا گیا۔ دمشق حالتِ ماتم میں تھا، یوں محسوس ہوتا تھا کہ دنیا ایک مقام پر آگئی ہے۔لوگ روتے تھے، بلکتے تھے، دھاڑیں مارت تھے، کچھ یہ یقین کرنے کو تیار نہ تھے صلاح الدین کا انتقال ہو گیا ہے اور کچھ نے جب دیکھا تو بے ہوش ہو گئے۔
دنیا میں حضرت صلاح الدین ایوبی ایک دینار اور سینتالیس درہم، ایک گھوڑا اور کچھ جنگی سامان سمیت سارے عالمِ اسلام کو روتا ہوا چھوڑ کر گئے۔سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ مصر، شام، لبنان اور یمن کے سلطان تھے۔ ان کی قبر پر لکھا ہے:۔
۔”اے اللہ! اس شخص کی آخری فتح کے طور پر، اس کے لئے اپنی جنت کے دروازے کھول دے”۔
واللہ اعلم بالثواب۔