Return to Main Pag

Qurani-Soorton-Ka-Nazm-e-Jali

MazameenEQuranHakeem KhulasaQuran QuranKareemKTeesParonKaMukhtasirKhulasa KhulasaTulQuran/Khulasa

SEERATUNNABIS.A.WVOL1

Thursday, February 5, 2015

نماز کی اہمیت اور "صلوٰۃ" کا مفہوم


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ وحدہُ والصلاۃُ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہُ و بعد


"صلوٰۃ" (نماز) کا مفہوم

لغوی معنی

صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے "

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

اے پیغمبر!) ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کیلئے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کیلئے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کیلئے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔
(سورۃ التوبہ:103)

جبکہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
اذا دعى أحدكم فليجب فاِن كان صائماً فليصلِ و اِن كان مفطراً فليطعم
جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرلے پھر اگر وہ روزے سے ہو تو دعا کردے اور اگر روزے سے نہ ہو تو (طعام) کھالے
(صحیح مسلم، کتاب النکاح)

اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو
(سورۃ الاحزاب:56)


اس کی تفسیر میں ابوالعالیہ فرماتے ہیں: "اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے درمیان تعریف کے ہیں، جبکہ ملائکہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا کے ہیں"۔
(رواہ البخاری معلقاً)

جبکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: "صلوٰۃ پڑھتے ہیں، (یعنی) برکت (کی دعا) دیتے ہیں
(رواہ البخاری معلقاً)

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلوٰۃ کے معنی رحمت کے ہیں جبکہ ملائکہ کی جانب سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔ البتہ راجح قول اول ہی ہے۔
(تفسیر ابنِ کثیر)

پس "صلوٰۃ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ثناء کے معنی میں ہے جبکہ مخلوقین یعنی ملائکہ، انس اور جنات کی جانب سے یہ قیام، رکوع، سجود اور دعاء کے معنی میں ہے۔ پرندوں اور دیگر حیوانوں کی "صلوٰۃ" کے معنی "تسبیح" کے ہیں۔
(لسان العرب، باب الیاء فصل الصاد)

شرعی معنی
شریعتِ مطہرہ میں "صلوٰۃ" (نماز) کے معنی: "اللہ کی عبادت کرنا، بعض مخصوص اور معلوم افعال اور اقوال کے ذریعے۔ جس کی ابتدا تکبیر سے ہوتی ہے جبکہ اختتام سلام پھیرنے پر ہوتا ہے۔ اور اسے "صلوٰۃ" (بمعنی دعا) کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں دعا بھی شامل ہے"
(المغنی لابن قدامہ، الشرح الکبیر، الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف، التعریفات للجرجانی)


"صلوٰۃ" دعا ہی کا ایک نام تھا پھر یہ (نماز کی) دعا سے مناسبت کی وجہ سے شرعی نماز کا بھی نام ہوگیا۔ اور یہ دونوں باتیں آپس میں قریب ہیں۔ پس جب بھی شریعت میں "صلوٰۃ" (نماز) کہا جائے تو اس سے نماز کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاتا۔ (یعنی شریعت میں لفظ "صلوٰۃ" اس مخصوص عبادت نماز ہی کیلئے خاص ہوگیا)
(شرح العمدۃ)


نماز دعا کی اِن ہر دو اقسام پر مشتمل ہے
دعائے مسئلہ: اس کے معنی ہیں ایسی چیز مانگنا جو سائل کیلئے مفید ہو مثلاً (دنیوی و اخروی) نفع طلب کرنا اور شرور و ضرر کے دور ہونے کی دعا مانگنا، بذریعۂ مقال اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی حاجت برآری طلب کرنا۔

دعائے عبادت: اس کے معنی اعمال صالحہ یعنی قیام، قعود، رکوع اور سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب طلب کرنے کے ہیں۔ پس جس نے یہ سب عبادات انجام دیں گویا اس نے بہ زبانِ حال اپنے رب سے اپنی مغفرت کی دعا کی۔
(شروط الدعاء و موانع الاجابۃ، فتح المجید، القول المفید علی کتاب التوحید)

شریعت میں نماز کا حکم
قرآن مجید، احادیثِ نبویہ اور اجماعِ امت سے نماز ہر مسلمان، عاقل و بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے۔ کلامِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا
بے شک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے
(سورۃ النساء:103)

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
تمام نمازوں کا پورا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا۔ اور اللہ کے سامنے با ادب فرماں بردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔
(سورۃ البقرۃ: 23

بیچ کی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے
(آسان ترجمۂ قرآن)

ایک اور مقام پر فرمانِ الہٰی ہے

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ

اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہوکر صرف اُسی کیلئے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی امت کا دین ہے۔"
(سورۃ البینہ:5)


اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا
(متفق علیہ، رواہ البخاری فی کتاب الایمان و المسلم فی صحیحہ فی کتاب الایمان ایضاً)


علاوہ ازیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اہلِ یمن کی جانب روانہ کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: "ان کو دعوت دے کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اگر وہ تیری یہ بات مان لیں تو ان کو بتادے کہ اللہ نے تم پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں"۔
(بخاری، کتاب الزکاۃ)


ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوپر لکھ دی
ہیں (فرض کردی ہیں) (عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کا ابتدائی حصہ جسے امام ابوداود نے اپنی سنن میں کتاب الصلاۃ میں روایت کیا ہے)

نماز کے وجوب پر امت کے اجماع سے متعلق ابنِ قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں
امت مسلمہ کا پانچ نمازوں کے دن اور رات میں وجوب پر اجماع ہے
(المغنی)

البتہ خواتین پر حیض اور نفاس کے دوران نماز فرض نہیں ہے۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟"(صحیح البخاری، کتاب الحیض)


1
نماز کی اہمیت

نماز دین کا ستون ہے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "اصل دین اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی عظمت و بلندی (کا نشان) اللہ کے راستہ میں جہاد ہے۔
(صحیح مسلم)
اور ستون کے گرنے پر اس پر استوار عمارت کا گرنا بھی لازمی ہے۔

2
سب سے پہلے نماز کی پرسش
روزِ محشر تمام اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کی بابت استفسار کیا جائے گا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے۔ پس اگر یہ (حساب) ٹھیک ہوگیا تو اس کا سارا عمل ٹھیک ہوجائے گا اور اگر یہ خراب ہوگیا تو اس کا سارا عمل خراب ہوجائے گا۔
(اخرجہ الطبرانی فی الاوسط)

اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ (پھر آپ نے) فرمایا "اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں (اس کے باوجود پوچھیں گے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے) کہ میرے بندے کی نماز دیکھو اس نے پوری کی ہے یا کم رکھی ہے؟ اگر نماز پوری ہوگی تو اس کیلئے پوری نماز لکھ دی جائے گی۔ اور اگر کم ہوگی تو (اللہ تعالیٰ) فرمائیں گے "دیکھو آیا میرے بندے کے پاس نفل نمازوں میں سے کچھ ہے؟" پھر اگر نفل میں سے کچھ ہوا تو فرمائیں گے کہ "میرے بندے کے فرائض کو اس کے نوافل میں سے پورا کردو۔" پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائیں گے۔"
(سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ)


3
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو آخری وصیت نماز
حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت (یہ تھی) "نماز، نماز اور تمہارے زیرِ دست (لونڈی غلام)" ۔۔۔
(مسند امام احمد)


4
نماز قائم کرنے والوں اور اس کے قیام کا حکم دینے والوں کی تعریف
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا
(54)
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا
(55)
ترجمہ: "اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔"
(سورۃ المریم: 54،55)


5
ارکانِ اسلام میں شہادتین کے بعد سب سے پہلا اور اہم رکن
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کا اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"۔
(متفق علیہ)

(شہادتین کے معنی اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دینا)


6
نماز کی اہمیت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کی فرضیت بواسطۂ حضرت جبریل علیہ السلام بذریعہ وحی نہیں فرمائی۔ بلکہ لیلۃ الاسراء (شبِ معراج) میں سات آسمانوں سے اوپر امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر نماز فرض کی گئی۔

7
:آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں۔ فرمانِ الٰہی ہے

وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى

اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، اور خود بھی اُس پر ثابت قدم رہو۔ ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم دیں گے۔ اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔
(سورۃ طہٰ : 132)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں، نماز کا حکم کرو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز کیلئے سرزنش کرو اور ان کے سونے کے بستر الگ کردو

No comments:

Post a Comment