Return to Main Pag

Qurani-Soorton-Ka-Nazm-e-Jali

MazameenEQuranHakeem KhulasaQuran QuranKareemKTeesParonKaMukhtasirKhulasa KhulasaTulQuran/Khulasa

SEERATUNNABIS.A.WVOL1

Saturday, March 14, 2015

نماز کی اہمیت و فضیلت۔

نماز دین کا ستون ہے۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے۔ نماز سرکار اعظمﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز قرب الٰہی جل جلالہ کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالیٰ کی رضا کاباعث ہے۔ نماز جنت کا راستہ ہے۔ نماز
پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ نماز برے کاموں سے روکتی ہے۔ نماز مومن اور کافر میں فرق ہے۔ نماز ولایت کا ذریعہ ہے۔ نمازی کو سرکاراعظمﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی۔ نمازی ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگا۔ نماز دلوں کا زنگ دور کرتی ہے۔ نماز بندے کو اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رکھتی ہے۔ نماز محتاجی سے بچاتی ہے۔ نماز روحانیت کو پانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز سے سکون اور قرار نصیب ہوتا ہے۔ نماز قبر کی روشنی ہے۔ نماز پل صراط کا چراغ ہے۔ نمازی کو روز محشر سرخروئی نصیب ہوگی اور سب سے بڑا انعام نمازی کو یہ ملے گا کہ اسے جنت میں اﷲ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا۔

جو لوگ نماز چھوڑ دیتے ہیں وہ بدنصیب ہیں
جو شخص نماز کو چھوڑ دیتا ہے اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے، جو شخص ایک نماز جان بوجھ کر قضا کرے گا، دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال جہنم کی آگ میں جلے گا۔ بے نمازی کا حشر ہامان، فرعون اور ابی بن خلف جیسے بڑے کافروں کے ساتھ ہوگا۔
بے نمازی کو جہنم کے عبرت ناک گڑھے میں ڈالا جائے گا۔ بے نمازی کو قبر اس طرح دبائے گی کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجائیں گی۔
بے نمازی پر گنجا سانپ مسلط کردیا جائے گا۔ بے نمازی کی قبر میں سانپ اور بچھو چھوڑ دیئے جائیں گے۔ بے نمازی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا (اس کو پڑھ کر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو نماز چھوڑنے والے شخص کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جائے؟اس بات کی علماء نے یوں توجیح بیان کی کہ نماز کو جان بوجھ کرچھوڑنے والا کفر کے قریب پہنچ گیا لہذا اس صورت میں اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی) نماز کو چھوڑنا پر اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے۔
جس نے نماز کو چھوڑا اس نے دین کے ستون کو ڈھانے میں مدد کی۔
بے نمازی دنیاو آخرت میں ذلیل و خوار ہوگا۔ بے نمازی کو کسی عمل کا ثواب نہیں دیا جاتا۔ بے نمازی کی کوئی دعا قبول نہیں کی جاتی۔ بے نمازی جب مرے گا تو ذلیل و خوار ہوکر مرے گا۔ بے نمازی سے خنزیر بھی پناہ مانگتا ہے۔ بے نمازی جب مرے گا تو اسے ایسی پیاس لگے گی کہ اگر پوری دنیا کا پانی پلا دیاجائے تو بھی اس کی پیاس نہیں بجھے گی۔ مطلب یہ کہ بے نمازی پیاسا ہوکر مرے گا۔ بے نمازی پر نحوست طاری رہتی ہے۔ بے نمازی کی روزی سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔ بے نمازی کی عمرمیں برکت ختم ہوجاتی ہے۔ بے نمازی کے چہرے سے نور ختم کردیاجاتا ہے۔ بے نمازی کی زندگی سے سکون و قرار ختم کردیاجاتا ہے۔ بے نمازی کی نیند سے راحت ختم کردی جاتی ہے۔ بے نمازی تنگ دستی اور پریشانی کا شکار رہتا ہے۔ بے نمازی کی نزع میں سختی پیدا کردی جاتی ہے۔ بے نمازی کی قبر تنگ کردی جاتی ہے۔ بے نمازی روز محشر ذلیل وخوار ہوگا۔
نماز کسی صورت میں معاف نہیں ہے
بندہ آنکھوں سے اندھا ہے، کانوں سے بہرہ ہے، منہ سے گونگا ہے، ہاتھ سے معذور ہے پھر بھی اس کو نماز معاف نہیں ہے۔ نماز کھڑے ہوکر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھیں۔ اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کر اشاروں کے ساتھ نماز پڑھنی ضروری ہے، اسے کسی صورت میں بھی چھوڑنے کا حکم نہیں ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی عظیم الشان عبادت نماز میں بے حد برکتیں ہیں۔ بندہ جب اپنے پروردگار جل جلالہ کی بارگاہ میں سر جھکاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو دربدر کی ٹھوکروں سے نجات عطا فرماتا ہے، اس کو ڈاکٹر اقبال اپنے شعر میں یوں بیان کرتے ہیں۔
ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
لاکھ سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات
مطلب یہ کہ نماز میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں جب تو خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ ریز ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جھکنا تجھے در در جھکنے سے بچالیتا ہے پھر تجھے اپنے پروردگار جل جلالہ کے سوا کسی کی محتاجی نہیں ہوتی۔ یہی وہ کرم ہے جو صرف نمازی کو حاصل ہوتا ہے۔
نماز مومن کی معراج ہے۔ مومن بندے کو نماز کے اندر وہ سکون اور حلاوت نصیب ہوتی ہے کہ وہ لذت اور حلاوت کسی اور چیز میں نہیں پاتا۔
روایتیں موجود ہیں تاریخ مالا مال ہے کہ خاصان خدا نے نماز کو کسی حال میں فوت نہیں ہونے دیا۔
1: صحابی رسولﷺ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نماز کے لئے صفیں درست فرما رہے تھے کہ آپ پر مجوسی نے خنجر سے حملہ کردیا، حملہ اتنا شدید تھا کہ آپ کے پیٹ میں سوراخ ہوگیا۔ ایسی حالت میں بھی آپ نے نماز نہ چھوڑی، سب سے پہلے آپ رضی اﷲ عنہ نے نماز ادا فرمائی۔
2: حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پائوں میں دوران جنگ تیر لگا لیکن آپ نے نماز ادا کی اور دوران نماز آپ کے پائوں سے تیر نکالا گیا۔
3: حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو حالت نماز میں عبدالرحمن ابن ملجم نے وار کرکے زخمی کیا، زخم بہت شدید تھا مگر اس حالت میں بھی آپ رضی اﷲ عنہ نے نماز ترک نہ کی۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کے واقعہ کو کون نہیں جانتا۔ کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر تلواروں کے سائے میں، دشمنوں کے نرغے میں ہونے کے باوجود، تیروں سے چھلنی جسم اور زخموں سے چور چور ہونے کے باوجودآپ نے نماز ظہر ادا کی اور حالت نماز میں ہی آپ کا سر تن سے جدا کردیاگیا۔
سجدے میں سر کٹا کے شہ کربلا نے
پیغام یہ دیا ہے جناب امام نے
رشتہ خدا سے اہل وفا توڑتے ہیں
مرجاتے ہیں نماز مگر چھوڑتے نہیں
صحابی رسولﷺ کو پھانسی کے پھندے پر لے جایا گیا، آپ رضی اﷲ عنہ سے جب پوچھا گیا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟ آپ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ دو رکعت نماز پڑھنے دی جائے۔ کئی صحابہ رضی اﷲ عنہم، کئی اولیاء اﷲ حالت نماز میں وصال فرما گئے۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی قبر میں بھی نماز پڑھتے ہوئے لوگوں نے دیکھا۔
لمحہ فکریہ!! مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اسلاف بوقت شہادت بھی نماز نہیں چھوڑتے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ذرا سی سردی ہو، ذرا سی گرمی ہو، سر یا کمر میں درد ہو یا ضروری کام ہوتو نماز کو چھوڑ دیتے ہیں۔ کسی نے بہت اچھے شعر میں یہ بات کہی ہے کہ
نماز سے مت کہو کہ مجھے کام ہے
کام سے کہو کہ مجھے نماز پڑھنی ہے
ہمارا حساب الٹا ہے، ہم نماز سے کہتے ہیں کہ مجھے کام سے جانا ہے، میرا دل نہیں چاہتا، مجھ میں ہمت نہیں ہے، بہانا یہ کرتے ہیں کہ میرے کپڑے ناپاک ہیں۔ اگر پھر بھی کبھی نماز پڑھ لی تو ہماری نمازوں کا یہ حال ہوتا ہے بقول شاعر
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
نماز پڑھ بھی لی تو پوری دنیا کا حساب کتاب کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جسم مصلے پر ہے مگر دماغ پوری دنیا کی چیزیں گنتی کررہا ہے۔
الغرض کہ نماز ہمیں پابندی کے ساتھ ادا کرنی چاہئے تاکہ ہم اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں۔ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کریں تاکہ اس کی حلاوت سے ہمارے سینے پرنور ہوں۔
اﷲتعالیٰ ہم سب کو پنج گانہ نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کے علاوہ نوافل کی بھی کثرت کی توفیق عطافرمائے اور ہم جب اس پروردگار جل جلالہ کی عبادت میں ہوں، اس وقت ہمیں موت آئے۔

آمین ثم آمین